تقلید شرعی میں کچھ تفصیل ہے شرعی مسائل تین طرح کے ہیں۔ 1۔ عقائد۔ 2۔ وہ جو صراحتاً قرآن وحدیث سے ثابت ہیں اجتہاد کو ان میں دخل نہ ہو۔ 3۔ وہ مسائل جو قرآن وحدیث سےاستنباط اور اجتہاد کرکے نکالے گئے ہوں“۔ جناب نے اپنے اس بیان میں تقلید شرعیہ کی تین اقسام کاتذکرہ فرمایا ہےذرا وضاحت سے فرمائیں کہ تقلید شرعی کی کچھ تفصیل میں ان تین طرح کے مسائل بیان کرنے سے آپ کا مقصود کیاہے؟اگر یہی کے مسائل کی تیسری قسم میں تو تقلید ہے اور پہلی دوقسموں میں تقلید نہیں تو محترم خفا نہ ہوں مسائل شرعیہ کی دوتہائی میں تو آپ بھی غیر مقلد ٹھہرے نا۔ نیزآپ کی یہ تفصیل وتفریق(مسائل کی تیسری قسم میں تقلید کا ہونا اور پہلی دو قسموں میں تقلید کا نہ ہونا) آپ کی پیش کردہ تقلید کی دلیل آیت مبارکہ” وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ“ الخ سے بالکل نہیں سمجھی جاتی پھر حضرت الامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ مسائل کی تیسری قسم میں شرعی محقق ہونے کی طرح پہلی دوقسموں میں بھی تومحقق شرعی ہی ہیں ناتو بتائیں ان دوقسموں میں آپ کا ان کی تقلید کو چھوڑدینا کیساہے؟کہیں یہ بھی آپ کو انکار حدیث تک نہ پہنچادے۔ کیونکہ آپ کے نزدیک” انکار حدیث ترک تقلید کا لازمی نتیجہ ہے“ اور مسائل کی دوقسموں میں آپ بھی تقلید کوترک فرمارہے ہیں تو پتہ چلا کہ تقلید میں کچھ تفصیل والا راستہ بھی خطرہ سے خالی نہیں۔
تقلید کا حکم
بندہ نے اپنے چھٹے خط میں لکھاتھا”تقلید کا حکم ابھی تک آپ نے بیان نہیں فرمایا آئندہ ضرور بالضرور بیان فرمائیں کہ تقلید آپ کے ہاں فرض ہے، واجب ہے یا مندوب!نیز یہ بھی واضح فرمائیں کہ آیت مبارکہ” وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ“ الخ کی تقلید پر آپ کے ہاں دلالت کون سی ہے؟قطعی یا ظنی؟ تاکہ آپ کے اس استدلال کی قیمت وکیفیت کو کماحقہ جانچا جاسکے“ مگر جناب نےمیری اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا اُمید ہے آپ اس دفعہ اس کا کوئی نہ کوئی جواب ضرور دیں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
حضرت الامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ مقلد نہیں مجتہد تھے
بندہ نےاپنی تحریرات میں کئی جگہ
|