ہے تو آپ کے ہی بیان کردہ مذکور بالامعنی تقلید کو ملحوظ رکھاجائے تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ حضرت الامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے قول وکلام اورفعل وکام کو آپ حجت اور لازم شرعی جانتے ہیں ادھر آپ اپنے چوتھے خط میں لکھ آئے ہیں”میرا اپنا یہ اصول ہے کہ ہر مسئلہ کےلیے سب سے پہلے (1) قرآن کریم (2)حدیث شریف(3)اجماع (4)قیاس“ تو جناب اب آپ کے لیے صرف تین ہی راستے ہیں۔
1۔ حضرت الامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے قول وکلام اور فعل وکام کو اصول اربعہ قرآن کریم، حدیث شریف، اجماع اور قیاس کےساتھ ایک پانچویں اصول، حضرت الامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کےقول وکلام اور فعل وکام کے حجت اور لازم شرعی ہونے کا اعلان فرمائیں۔ 2۔ یااپنی ان دو باتوں”حضرت الامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے قول وکلام اور فعل وکام کےحجت اور لازم شرعی ہونے“ اور” میرا اپنا یہ اصول ہے“ الخ میں سے ایک بات سے رجوع فرمائیں دیکھئے آپ ان تین راستوں سے کون ساراستہ اختیار فرماتے ہیں؟
5۔ مسلم الثبوت وغیرہ کتب میں تقلید کےسلسلہ میں قول کا ذکر ہوتا ہے آپ نے قول کےساتھ فعل کو بھی ذکر فرمایا ہے تو فرمائیں پرانے بزرگوں کا فعل کوذکر نہ فرمانا تفریط ہے؟ یا آپ کا فعل کو ذکر کرنا افراط ؟ یا کوئی اور صورت ہے؟
6۔ اپنے الفاظ”حجت“ اور”لازم شرعی“ پر ٹھنڈے دل سے بہت ہی زیادہ غور فرمائیں آیا واقعی آپ شرعی محقق کے قول اور فعل کو حجت اور لازم شرعی ہی جانتے ہیں جب کہ کسی کے قول وفعل کےحجت اور لازم شرعی بننے کے لیے اللہ تعالیٰ کےاذن کاہونا ضروری ہے جیسا کہ قرآن مجید کی متعددآیات مبارکہ سے واضح ہے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے”اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ “ فرمایا وہ بھی تو اپنے شرعی محققین کے قول وکلام کو حجت اور لازم شرعی ہی جانتے تھے نا۔
تقلید میں کچھ تفصیل
آپ لکھتے ہیں”تقلید دوطرح کی ہے۔ 1۔ شرعی۔ 2۔ غیرشرعی
|