جواب مکتوب نمبر7:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بخدمت جناب محمد صالح صاحب!
هَدَانِيَ اللّٰه تَعَاليٰ وَاِيَّاكَ لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
امابعد!آپ کی اور میری اس بات چیت کا موضوع ہے”مسئلہ تقلید“چنانچہ آپ اپنے اس تازہ خط میں لکھتے ہیں۔ ”بات تو تقلید کے مسئلہ پر چل رہی ہے“اس لیے جناب سے مؤدبانہ اپیل ہے کہ آپ اپنے ہی اصول کے تحت (1) قرآن کریم (2)حدیث شریف(3) اجماع (4)قیاس۔ سے اپنے اس موضوع“مسئلہ تقلید“پر جس قدر مواد پیش فرما سکتے ہیں پیش فرمائیں باقی آپ کا لکھنا فلاں صاحب شافعی تھے، فلاں مالکی فلاں حنبلی اور فلاں حنفی، نہ قرآن کریم ہے، نہ حدیث شریف، نہ اجماع اور نہ قیاس صحیح و غیر صحیح تو آپ نے”بات تو تقلید کے مسئلہ پر چل رہی ہے“لکھ کر موضوع کو متعین فرما دیا ہے لہٰذا یہ بندہ آپ کی موضوع ”مسئلہ تقلید“سے ہٹی ہوئی کسی بات کا کوئی جواب نہیں دے گا تاوقتیکہ اس موضوع ”مسئلہ تقلید پر ہمارا کوئی باہمی فیصلہ نہ ہو جائے، ان شاء اللہ تعالیٰ، اس لیے آپ جو چاہیں مثلاً مسئلہ شرط نماز وغیرہ بڑے شوق سے لکھتے رہیں۔ “
تقلید کا معنی
اس سلسلہ میں بندہ نے تو اپنے پہلے خط ہی میں لکھ دیا تھا کہ کسی کی دلیل شرعی کے منافی رائے کو ماننا تقلید ہے۔ مگر آپ نے اس بارہ میں اپنے چھٹے خط میں لکھا”تقلید اور اتباع ایک ہی چیز ہے تقلید کا یہ معنی ہے کہ دوسرےکی بات کو اپنے لیے رہنمائی کا ذریعہ بنائے اور اس کی پیروی کرے۔ “ آپ کے بیان کردہ اس معنی تقلید پر بندہ نے جب متعدد وجوہ سے گرفت کی تو آپ نے اب کے اپنے ساتویں خط
|