مکتوب نمبر7:
84؍4؍15۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
محترم المقام جناب مولانا صاحب!
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ کا تحریر کردہ خط ملا۔ آپ ایک بات کو کئی کئی دفعہ لکھتے ہیں۔ اس کا کیا فائدہ۔ میں لکھتا ہوں۔ جواب کچھ ملتا ہے۔ بات تو تقلید کے مسئلہ پر چل رہی ہے۔ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ اسلام کی بنیاد قرآن اور حدیث پر ہے۔ لیکن جو مسائل قرآن اور حدیث سے صراحۃً نہیں ملتے۔ تمام مسائل قرآن اور حدیث میں نہیں ملتے۔ بات پھر بڑھے گی نماز کی شرطیں قرآن اور حدیث سے بیان کریں۔ اگر کسی اور کتاب سے بیان کریں گے تو میں نہیں مانوں گا اگر آپ میں ہمت ہے تو اس کا جواب دیں۔ حدیث نقل کریں۔ تقلید کی دو قسمیں ہیں نمبر1: لغوی معنی، نمبر2:شرعی۔ لغوی معنی گلے میں ہار یا پٹہ ڈالنا۔ شرعی معنی کسی کے قول اور فعل کو اپنے اوپر لازم شرعی جاننا۔ کہ اس کاکلام اور اس کاکام ہمارے لیے حجت ہے۔ کیونکہ یہ شرعی محقق ہے۔
تقلیددو طرح کی ہے(1)شرعی (2)غیر شرعی۔ تقلید شرعی میں کچھ تفصیل ہے شرعی مسائل تین طرح کے ہیں۔ (1)عقائد (2)وہ مسائل جو صراحۃً قرآن و حدیث سے ثابت ہیں۔ اجتہاد کو اُن میں داخل نہ ہو(3)وہ مسائل جو قرآن و حدیث سےاستنباط اور اجتہاد کر کے نکالےگئے ہوں۔ مولانا صاحب جب آپ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قول اور فعل کو نہیں مانتے۔ تو مجتہد کی بات آپ کب مانیں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ میری سنت اور میرےصحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سنت کو لازم پکڑو۔ جمعہ کی دوسری اذان کے متعلق میں نے لکھا تھا۔ کہ آپ کی مسجدوں میں بھی جمعہ کی دو اذانیں ہوتی ہیں۔ آپ دوسری اذان کو
|