اللہ تعالیٰ بہت نفع ہوگا۔
2۔ آپ نے صاف اور واضح الفاظ میں تصریح فرمائی ہے کہ”تقلید اور اتباع ایک ہی چیز ہے“نیز آپ تقلید کے سلسلہ میں آیت مبارکہ” وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ“پیش فرماچکے ہیں تو آپ کے ہی مندرجہ بالا فرمان ”علماء کاکام تحقیق ہے اور عوام کاکام تقلید ہے“پرغورفرمایا جائےتونتیجہ یہی نکلے گا کہ آپ کے ہاں عوام نے تو تقلید کر کے آیت مبارکہ”وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ“پر عمل کر لیا لیکن علماء دیوبندنے تحقیق کو اپنا کر آیت مبارکہ ” وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ“پر عمل نہ کیا حالانکہ آیت مبارکہ ” وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ“الخ میں علماء اور عوام دونوں یکساں مخاطب ہیں تو آپ کے اس ذہن کے لحاظ سے تو قرآن مجید پر عمل کرنے کے سلسلہ میں عوام نے علماء دیوبند کو پیچھے چھوڑدیا۔
3۔ آپ کے بیان کردہ معنی تقلید کی رُوسے تقلید اور اتباع ایک ہی چیز ہے چنانچہ آپ اس کی تصریح بھی فرما چکے ہیں اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں کو اتباع کا حکم دیا ہے جن میں حضرت الامام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سمیت تمام مجتہدین شامل ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ حضرت الامام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر مجتہدین تاوفات آیت مبارکہ” وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ“الخ پر عمل کرتے رہے یا نہ!اگر آپ ہاں میں جواب دیں تو حضرت الامام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر مجتہدین تاوفات مقلد ہی مقلد قرار پاتے ہیں کیونکہ آپ کے نزدیک تقلید اور اتباع ایک ہی چیز ہے اور اگرآپ نہ میں جواب دیں تو حضرت الامام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر مجتہدین کاتاوفات آیت مبارکہ” وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ“الخ پر عمل نہ کرنا لازم آتا ہے۔ تو پتہ چلا کہ تقلید اور اتبا ع کو ایک ہی چیز کہنا خطرہ سے خالی نہیں اُمید ہے آپ ضروربالضرور غورفرمائیں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
4۔ آیت مبارکہ” وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ“الخ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اتباع کا حکم ہے اور
|