مگر اہل الرائے کے امام حضرت ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن مجید پڑھنے کی وہ مقدار جس کے بغیر نماز نہیں ہوتی صرف ایک آیت مقرر کی ہے۔ اکیلا نمازی ہو یا امام، کوئی ایک آیت پڑھ لے تو نماز ہو جائے گی مقتدی کو ان کے نزدیک یہ ایک آیت پڑھنا بھی ناجائز ہے۔
مسلمان ہونے کی حیثیت میں ہر مسلم کی طرح حضرات احناف کا حق تھا کہ جب احادیث سے ان پر واضح ہوگیا کہ سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بغیر نماز نہیں ہوتی تو وہ اپنے امام کی بات چھوڑ کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو کھلے دل سے قبول کرلیتے کیونکہ امام صاحب کے پاس توحدیث نہ پہنچنے یا اجتہادی غلطی کا عذر ہوسکتا ہے مگر اب صحیح احادیث واضح ہوجانے کے بعد ہمارے ان بھائیوں کا کیا عذر ہوسکتا ہے؟
مگر انہوں نے کہا کہ ہمارے امام کا مذہب یہ ہے کہ ایک آیت پڑھ لینے سے نماز تو ہوجائے گی مگر سورۃ فاتحہ پڑھنا واجب ہے اس کے چھوڑنے سے گناہگار ہوگا۔
اگر واقعی امام صاحب کا یہ مذہب ہوتا تو درست یہ بھی نہیں تھا کہ کیونکہ سورہ فاتحہ نہ پڑھنے سے صرف ایک واجب چیز چھوڑنے کا گناہگار نہیں ہوگا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اس کی نماز ہوگی ہی نہیں۔
لیکن اس کا کیا جائے کہ یہ بات کہ”ایک آیت پڑھنا فرض ہے باقی سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے“امام صاحب سے ہرگز ثابت نہیں امام محمد بن حسن نے مؤطا میں ان سے سورۃ فاتحہ کے لیے صرف سنت کا لفظ نقل کیا ہے جیساکہ ہمارے محترم بھائی حافظ عبدالمنان صاحب کے تحریر فرمودہ تعارف میں بحوالہ گزر چکا ہے۔
قراءت میں فرض اور واجب کی یہ تقسیم بہت بعد کے لوگوں نے حدیث کی مخالفت پر پردہ ڈالنے کےلیے ایجاد کی ہے۔ اگرچہ اس ایجاد کےباوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں اور امام صاحب کے قول میں بنیادی تضاد پھر بھی بدستور قائم ہے
|