اپنے بزرگوں کے لیے اس چیز کے قائل ہیں اور اس کا نام وہ علم غیب رکھتے ہیں۔
حقیقت یہ کہ کسی ایک آدھ موقع پر الہام کے ذریعے علم ہوجانا اور بات ہے اور تعویز کے لیے آنے والے ہر شخص کے ہاں ہونے والے بچے کا علم بالکل دوسری بات۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدا ہونے والے بچے کے علم کو ان پانچ چیزوں میں شمار کیا ہے۔ ( لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ) جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ رہا علامتوں سے یا اسباب کے ذریعے پیشگوئی کرنا تو ان پانچ چیزوں کی پیشگوئی کتنی بھی علامتوں کو یا اسباب کو ملحوظ رکھ کر کی جائے کبھی درست نکلتی ہے کبھی غلط۔ تیز گام کا عملہ دو بجے اعلان کرتا ہے کہ گاڑی کل دس بچے کراچی پہنچ جائے گی تو کبھی پہنچتی ہے کبھی نہیں۔ کبھی ڈرائیور صاحب ہی چل بستے ہیں۔ اسی طرح محکمہ موسمیات کی پیشگوئی کبھی ٹھیک نکلتی ہے کبھی غلط۔ ان کی ہر پیشگوئی ہرگز پوری نہیں ہوتی اور جس کی پیشگوئیوں میں سے ایک فیصد بھی غلط نکل آئے باقی کا یقین بھی ناممکن ہوتا ہے کہ صحیح ہی نکلیں گی۔ قرآن مجید میں مذکورہ پانچ غیب کی چیزوں کے متعلق کسی کی پیشگوئیاں سو فیصد درست ہو جائیں، کوئی شخص آنےوالے کل کی ہربات جان لیتا ہویا پیدا ہونے والے ہر بچے کے متعلق بتادیتا ہو بالکل ناممکن بات ہے اور قرآن وحدیث سے صاف انکار ہے۔ فرمائیے کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کےبتانے سے ان پانچ چیزوں میں سے کسی چیز کاکلی علم حاصل تھا؟اگرانہیں حاصل نہ تھا عبداللہ خاں کو کیسے حاصل ہوگیا؟
4۔ قاضی حمیدا للہ صاحب عالم مثال کی بات کرتے ہیں اور دارالعلوم ویوبند کے تین مہتمم صاحبان فرماتے ہیں کہ مولانا نانوتوی مرنے کے بعد جسد عنصری کےساتھ مولانا رفیع الدین صاحب کے پاس آئے اور مولانا تھانوی روح میں یہ قوت مانتے ہیں کہ وہ عناصر میں تصرف کرکے جسد عنصری تیار کرسکتی ہے۔ کیا جسد عنصری اورعناصر میں تصرف بھی عالم مثال ہی ہے؟تفصیل اور حوالہ جات کے لیے دیکھئے ایک دین اور چار مذہب۔
|