Maktaba Wahhabi

754 - 896
ہے تومعلوم ہوا کہ ((اذا فات الشرط فات المشروط))کو ئی قاعدہ کلیہ نہیں ہے بلکہ صرف وہاں جاری ہوتا ہے جہاں شرط حق اور درست ہو نیز دیکھئے یہ قانون کسی کے قول”اگر سورج نکلا ہوا ہو تو رات ہوگی ورنہ دن“میں جاری نہیں رہا۔ 7۔ سابعاً، اس بندہ کی طرف سے اگر کہا جائے”قاری صاحب! اگر آپ (قَالَ اَبُوْ دَاؤدَ: وَلَيْسَ هُوَ بِصحِيْحٍ الخ)کے صاحب مشکوہ کا وہم ہونا، ابن القطان کا حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ علیہ کی روایت کو بلا استثناء صحیح کہنا اور((وما حَدَّثكم ابنُ مسعودٍ فصَدِّقوه)) کا ترمذی اور مستدرک حاکم میں موجود ہونا ثابت فرمادیں تو آگے بات کرنا ورنہ بات چیت ختم“تو کیا اس میں ازروئے انصاف کوئی معقولیت ہے؟یا اس سے زیرِ بحث مسئلہ حل ہو جائے گا؟نہیں ہرگزنہیں لہٰذا آپ کی مندرجہ بالا شرط مشروط والی بات بھی اسی قسم میں شامل وداخل ہے جبکہ یہ تینوں آپ کی غلطیاں ہیں جیسا کہ میری سابقہ تحریروں میں تفصیلاً لکھا ہے اورامام احمد اور یحییٰ بن آدم کی طرف فیصلہ تضعیف کی نسبت بندہ کی غلطی نہیں ہےچنانچہ آپ ابھی ملاحظہ فرمائیں گے۔ 8۔ ثامناً، آپ کا لکھنا”حافظ ابن حجر تلخیص الحبیرامام بخاری کے رسالہ جزء رفع الیدین کے حوالہ سے لکھتے ہیں الخ“سراسر غلط ہے کیونکہ تلخیص الحبیر میں”رسالہ جزء رفع الیدین“کا حوالہ نہیں ہے آپ تلخیص کے اس مقام کو ذرا غور سے پڑھیں باقی مجھے، آپ کو، بنوری صاحب کو یا کسی اور بزرگ کو حافظ ابن حجر کے مآخذ کا پتہ نہ چل سکنا کوئی ناممکن چیز نہیں ہاں تلخیص میں”امام بخاری کا ذکر ضرور موجود ہے لیکن امام بخاری کے ذکر سے ان کے رسالہ جزء رفع الیدین کو مراد لے لینا کوئی لازم نہیں لہٰذا آپ کی بات”لیکن حافظ ابن حجر کی یہ سخت غلطی
Flag Counter