کے اس مندرجہ بالا بیان کے لحاظ سے وتروں کی تیسری رکعت میں رفع الیدین نہ کرنے کی غیر صریح روایت موجود ہے لہٰذا وہ بھی سکون فی الصلاۃ کے منافی ہے تو اسے بھی حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ کی زدمیں لانا چاہیے نیز قاری صاحب کی اس عبارت کامفہوم” کسی کام کانہ کرنا صریح روایت سے ثابت ہوتا ہے“ اُصول وقواعد کے خلاف ہے۔
4۔ رابعا، قاری صاحب کی ہی زبان میں ہم بھی کہتے ہیں”رکوع جاتے، اس سے سراٹھاتے وقت اور دورکعتوں سے اُٹھ کر رفع الیدین نہ کرنے کی کوئی صریح روایت موجود نہیں اس لیے ان تینوں مقام پر رفع الیدین نہ سکون فی الصلاۃ کے منافی ہے اور نہ ہی ممنوع اور منسوخ“ لیجئے قاری صاحب اب تو آپ کی ہی زبان سے اسے تو تسلیم کیجئے۔
5۔ خامساً، وتروں کی تیسری رکعت میں رفع الیدین کی قاری صاحب نے ابھی تک کوئی ایک دلیل بھی پیش نہیں فرمائی نہ صریح اور نہ ہی غیر صریح جبکہ رکوع والے رفع الیدین کو ثابت کرنےوالی بخاری، مسلم اور دیگر کتب حدیث میں کئی ایک صحیح اور صریح احادیث موجود ہیں تو وتروں کی تیسری رکعت والا وہ رفع الیدین جس کی قاری صاحب نے ابھی تک کوئی ایک صریح یاغیر صریح دلیل بھی نہیں دی تو قاری صاحب کے نزدیک سکون فی الصلاۃ کے منافی نہ ہو اور نہ ہی وہ ممنوع اور منسوخ قرارپائے اور رکوع والا وہ رفع الیدین جس کے اثبات میں کئی ایک صحیح اورصریح احادیث موجود ہیں قاری صاحب کے نزدیک سکون فی الصلاۃ کے منافی ہو۔ نیز وہ ان کے نزدیک ممنوع اور منسوخ بھی قرارپائے اس سے بڑھ کر ناانصافی کی اور کیا مثال پیش کی جاسکتی ہے؟توقاری صاحب اللہ تعالیٰ کاواسطہ دے کر عرض کرتاہوں کہ صرف دوسروں کوہی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی تلقین نہ کرو خود بھی تو اللہ تعالیٰ سے ڈرونا۔
|