نصب الرایہ والے کی بات کو ہم تسلیم کرتے ہیں کہ دونوں سیاق جداجدا ہیں اورایک سیاق(سلام کے وقت اشارہ ورفع الیدین والا) دوسرے سیاق(خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ والے) کی تفسیر نہیں مگر اس کا یہ مطلب کہاں سے اور کیسے نکل آیا کہ(خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) والے میں وارد(رَافِعِي أَيْدِيكُمْ) میں رکوع والا رفع الیدین مراد ہے؟اور اس کی کیا دلیل ہے؟میرے چوتھے جواب میں مذکورہ عبارت”بصورت تسلیم اتنی چیز سامنے آئے گی کہ خَرَجَ عَلَيْنَا والے واقعہ میں رفع الیدین عندالسلام مراد نہیں مگر اس سے یہ کیونکر ثابت ہوگا کہ اس سےرکوع والا رفع الیدین مراد ہے؟وَ مَنِ ادَّعَى فَعَلَيْهِ الْبُرْهَانُ پر غور فرمائیں وہ نصب الرایہ والی اس بات کا ہی رد ہے اس کا جواب دیں تو اس ساری گفتگو کا نتیجہ یہی ہے کہ(رَافِعِي أَيْدِيكُمْ الخ) میں رکوع والا رفع الیدین مراد ہونے کی قاری صاحب ابھی تک کوئی ایک بلکہ کوئی حصہ دلیل بھی پیش نہیں فرماسکے اور جو کچھ انہوں نے پیش فرمایا وہ مطلوب دلیل کا کروڑواں حصہ بھی نہیں اس لیے (رَافِعِي أَيْدِيكُمْ) الخ میں رکوع والا رفع الیدین مراد ہونے کی دلیل پیش کرنے والا فریضہ ابھی تک ہمارے قاری صاحب کے ذمہ ہے جس سے انہیں اولین فرصت میں سبکدوش ہونا چاہیے۔
میرے اس چوتھے جواب میں جس چیز کا قاری صاحب سے مطالبہ کیاگیاوہ صرف اور صرف یہی ہے کہ وہ(رَافِعِي أَيْدِيكُمْ) الخ میں رکوع والا رفع الیدین مراد ہونے کی دلیل پیش کریں۔ مگر وہ مطلوب دلیل پیش کرنے کی بجائے فرماتے ہیں” اس سے یہ ثابت ہوا کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رفع الیدین کرنے والوں پر ناراض ہوئے اور انہیں سکون کا حکم دیا کہ معلوم ہوا رفع الیدین سکون کے خلاف ہے۔ اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی اپنی تفسیر کے مطابق رفع الیدین خشوع نماز کے مخالف ہے۔ مولانا صاحب یہ تفسیر ی فتوی ان کی مرفوع روایت کے عین موافق ہے جس میں رفع الیدین منع کیا گیا ہے۔ (قاری صاحب کا رقعہ نمبر 5 ص 19)
|