ابو داؤد کا فیصلہ قراردینے میں متفرد اور اکیلے نہیں چنانچہ آپ اوپر پڑھ چکے ہیں کہ حافظ ابن حجر بھی (ليس هو بصحيح) کو ابو داؤد کا فیصلہ قراردے چکے ہیں۔ پھر امام شوکانی نیل الاوطار میں لکھتے ہیں (وتصريح ابي داؤد بانه ليس بصحيح) نیز صاحب عون المعبود کا بیان ہے کہ”میرے پاس ابو داؤد کے دو پرانے نسخے ہیں جن میں یہ لفظ بھی موجود ہیں۔ “(میرا رقعہ نمبر1ص5، 6)
اس کو پڑھ کر قاری صاحب لکھتے ہیں”اصل بات یہ ہے کہ مولانا صاحب پریشانی میں پڑ گئے ہوں گے کہ صاحب مشکوۃ کا وہم ہاں مولانا صاحب تحقیق کے میدان میں ایسا ہی ہوتا ہے آپ تو ایک پڑھ کر پریشان ہو رہے ہیں جبکہ صاحب مشکوۃ کے اوہام کثیرہ ہے[1]تفصیل کی اب گنجائش نہیں ویسے چلتے چلتے ایک دو ملاحظہ فرما لیجیے، اس کے بعد انھوں نے صاحب مشکوۃ کے دو وہم (1)(بصوته الاعليٰ)(2)(امرأته) بیان کیے ہیں۔ (قاری صاحب کا رقعہ نمبر5ص13)
1۔ اولاً: پریشانی والی بات قاری صاحب کا بندہ پر صریح بہتان ہے۔ میری عبارت ملاحظہ فرما لیں اس میں کوئی ایک لفظ بھی آپ کو نہیں ملے گا جو میری پریشانی پر دلالت کرے ہاں میری عبارت میں آپ کو یہ ضرور پتہ چلے گا کہ قاری صاحب کا صاحب مشکوہ پر وہم والا الزام ان کے رقعہ کو پڑھنے سے پہلے ہی بندہ کو معلوم تھا تو پھر پریشانی کیوں اور کیسی؟نیز میری عبارت صاحب مشکوۃ کے (ليس هو بصحيح) کو ابو داؤد کا فیصلہ قرار دینے کے وہم نہ ہونے پر دلائل سے بھری پڑی ہے اور ان دلائل سے کسی ایک دلیل کا بھی قاری صاحب نے جواب نہیں دیا اور نہ ہی دیں گے ان شاء اللہ تعالیٰ، تو آپ خود غورفرمائیں کہ یہ صورت حال قاری صاحب کے لیے پریشانی کا باعث ہے یا میرے لیے؟کسی
|