مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول، فعل اورآپ کی تقریر اور ظاہر بات ہے کہ موقوف روایت(صحابی کا قول، فعل اور اس کی تقریر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر شدہ قول، فعل اور تقریر تو ہے ہی نہیں لہٰذا وہ شرعی دلائل میں شامل نہیں۔ ہاں اگر کوئی موقوف روایت حکماً مرفوع ہوتو اسے سنت ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں شامل سمجھا جائے گا لیکن اس کے حکماً مرفوع ہونے کے لحاظ سے نہ کہ اس کے موقوف ہونے کے لحاظ سے البتہ موقوف روایت کے حکماً مرفوع ہونے کے لیے کچھ شرائط ہیں جن کی تفصیل متعلقہ کتابوں میں موجود ہے بہر حال قاری صاحب کی پیش کردہ دو موقوف روایات نہ ہی صریحاً مرفوع ہیں اور نہ ہی حکماً مرفوع، لہٰذا وہ دونوں شرعی دلائل میں سے کوئی سی دلیل بھی نہیں اگرقاری صاحب ان کو حکماً مرفوع سمجھتے ہوں تو وہ اس دعویٰ کے دلائل پیش فرمائیں۔ کیونکہ اُصول کے لحاظ سے دلیل مدعی کے ذمہ ہے نہ کہ دلائل اور مدعی علیہ کے ذمہ، اور اگر قاری صاحب بھی ان دونوں موقوف روایتوں کو حکماً بھی مرفوع نہ سمجھتے ہوں تو پھر مسئلہ بالکل صاف۔
پھراس مقام پر قاری صاحب کے لیے میری مذکورہ بالا بات کا جواب دینے میں صرف دو ہی معقول راہیں تھیں۔ پہلی راہ تو یہ تھی کہ وہ فرماتے کہ شرعی دلائل تو واقعی چار ہی ہیں اور میری پیش کردہ دو موقوف روایتیں ان چار شرعی دلائل میں سے فلاں دلیل میں شامل ہیں۔ اور اس کو بادلائل بیان کرتے۔ اور دوسری راہ یہ تھی کہ وہ صاف صاف فرماتے کہ شرعی دلائل صرف چار ہی نہیں پانچ ہیں۔ چار تو وہی جو بیان ہو چکے اور پانچویں شرعی دلیل ہے موقوف روایت پھر اپنے اس موقف کو مدلل کرتے مگر ان کی تحریر شاہد ہے کہ انھوں نے ان دو معقول راہوں سے کوئی سی راہ بھی اختیار نہیں فرمائی، ان کی خدمت میں عرض ہے کہ اب ہی اس طرف توجہ فرمائیں اور دوٹوک فیصلہ دیں۔ آیا وہ شرعی دلائل کو مذکورہ بالا چار دلیلوں میں منحصر مانتے ہیں؟اگر مانتے ہیں تو اپنی پیش کردہ دو موقوف روایتوں کا ان چار شرعی دلائل میں کسی ایک میں شامل ہونا دلائل
|