بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بخدمت جناب قاری جمیل احمد صاحب!
زَادنيَ اللّٰه تَعَاليٰ وَاِيَّاكَ عِلْمًا نَافِعًا وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا
وعليكم السلام ورحمةاللّٰه وبركاته
اما بعد!آج بعداز نماز جمعہ آپ کا پانچواں رُقعہ موصول ہوا۔ شاید آپ کو معلوم ہو کہ بندہ ان دنوں اپنے گاؤں نور پور گیا ہواہے اور پورا رمضان المبارک وہیں گزارنا ہے اس لیے آپ کے اس رقُعے کا جواب عیدالفطر کے بعد لکھنا شروع کیاجائےگا ہاں اتنی بات ابھی عرض کیے دیتا ہوں کہ میرے نام کے ساتھ”شیخ الحدیث“ ایسے لقب نہ لکھا کریں آپ میرے دوست احباب سے پوچھ سکتے ہیں کہ میں اس قسم کے لقبوں کے اپنے نام کے ساتھ پکارے جانے کو پسند نہیں کرتا۔
ابن عبدالحق بقلمہ
10 ؍رمضان المبارک 1402 ھ
سرفراز کالونی جی۔ ٹی روڈ گوجرانوالہ
مندرجہ بالا تحریر قاری صاحب کو 10رمضان المبارک 1402ھ کو جمعہ کے روز ہی پہنچادی گئی تھی۔ حسب وعدہ اب ان کے پانچویں رقعے کا جواب سنیے توقاری صاحب اپنے اس پانچویں رقعہ میں لکھتے ہیں”آپ کا رقعہ مع ایک رسالہ کے بواسطہ مولنا محمد 1امجد2کے پہنچا پڑھنے کے بعد معلوم ہواکہ مولنا 3صاحب نے یزعم4 خود مجھے منسوخیت رفع الیدین کا مدعی ٹھہرایا5 ہوا ہے حالانکہ مرے6 رقعہ کے آخری سطور یہ7 ہے اور بطور سرخی دے کر لکھاہو8 ہے یعنی اس طرح۔ تنبیہ۔ بھائی امجد صاحب یہ دلائل پیشن 9کیے ہیں ترکِ رفع یدین پر“الخ(قاری صاحب کا رقعہ نمبر 5 ص1)
2۔ نیز قاری صاحب ہی تحریر فرماتے ہیں”بجائے جواب دینے کے یہ راستہ اختیار
|