یہ فرق معلوم کرنا معمولی سی بات نہیں اور نہ ہی یہ غیر مقلدین کے بس کی بات ہے ؎
ہر ہاتھ کو عاقل ید بیضاء نہیں کہتے اور ہرصاحب عصا کو موسیٰ نہیں کہتے
آگے جا کر مولانا صاحب فرماتے یعنی لکھتے ہیں:
(كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) الخ اور (خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) الخ کے اس واقعہ کےدو دفعہ رُونما ہونے پر دلالت سے یہ لازم نہیں آتا کہ دونوں موقعوں پر رفع الیدین جدا جدا ہو۔ الخ
مولانا صاحب علامہ زیلعی نصب الرایہ ج 1 ص 392 میں لکھتے ہیں کہ ان دونوں سیاق جداجدا ہے۔ لہٰذا ایک روایت کو دوسری کی تفسیر نہیں بنایا جاسکتا۔
1۔ نیز رفع الیدین سے منع کی حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں:
(خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) یا(دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) يا(إنه دخل المسجد فأبصر قوماً) جس کا مطلب یہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم جماعت کے بغیر اپنی نماز سنن یا نوافل ادا کررہے تھے۔
اوراشارہ سے منع کی حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں صَلَّيْنَا وراء رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مسند احمد ج5 ص 86(كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) مسند احمد ج5 ص 107 جس کا مطلب ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز باجماعت ادا کررہے تھے۔
2۔ رفع الیدین سے منع کی حدیث میں رَافِعِي أَيْدِيكُمْ یا تمد رفعوا ايديهمکے الفاظ ہیں جو جو رفع الیدین میں واضح ہیں۔ اور اشارہ سے منع کی حدیث میں تشبرون بايديكم یا تومون بايديكم یا يرمون بايدهيهم کے الفاظ ہیں جو اشارے میں واضح ہیں۔
3۔ رفع یدین سے منع کی حدیث میں سلام کا کوئی ذکر نہیں اوراشارہ سے منع کی حدیث میں سلام کاذکرہے اور پھر اس کا طریقہ مذکور ہے۔
|