بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بخدمت جناب قاری جمیل احمد صاحب!
زَادنيَ اللّٰه تَعَاليٰ وَاِ
يَّاكَ عِلْمًا نَافِعًا وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا
وعليكم السلام ورحمةاللّٰه وبركاته
اما بعد!اصل واقعہ یہ ہے کہ آپ کی مولوی امجد صاحب کے ساتھ بات چیت ہوئی جس میں طےیہ ہواکہ اگررکوع جاتے، اس سے سراُٹھاتے وقت اور درمیانے تشہد سے اُٹھ کر رفع الیدین کا منسوخ ہونا قوی دلیل سے ثابت ہوجائے تو مولوی امجد موصوف ان مواضع ثلاثہ میں رفع الیدین چھوڑدیں گے۔ چنانچہ یہ بات انہوں نے آپ کو لکھ کر بھی دی جس کی پوری نقل میں اپنی دوسری تحریر میں پیش کرچکا ہوں۔ سردست ان کی تحریر کا آخری جملہ مدنظر رکھئے، وہ لکھتے ہیں”اگر منسوخ ہونے کی قوی دلیل پیش کردیں تو میں نماز میں رفع الیدین رکوع والا چھوڑ دوں گا۔ “
اتنے واقعہ کے بعد آپ نے اپنا پہلا رقعہ سپردقلم فرمایا جس کے آغاز میں آپ تحریر فرماتے ہیں:
”بھائی امجد صاحب! آپ کچھ دوستوں کے ساتھ رفع یدین کے بارے میں گفتگو کررہے تھے اور یہ بندہ ناچیز ادھر ہی تھا، اسی اثناء میں آپ نے یہ کہا، اگر آپ یہ ثابت کردیں کہ رفع یدین نہیں کرنا چاہیے دلیل قوی سے یا اس رفع یدین[1] کے منسوخیت پر تو میں رفع یدین کرنا چھوڑدوں گا، لو اب میرے بھائی صاحب آنکھوں سے پڑھیے“۔ الخ
اس کے بعد آپ نے پانچ روایات اور کچھ اعتراض وجواب تحریر فرمائے ہیں جبکہ پہلی روایت درج کرنے کے بعد آپ نے لکھا”اس سے یہ دلیل ثابت ہوئی
|