Maktaba Wahhabi

556 - 896
جواب نمبر2:وکیع ابن الجراح ثقة ثبة ہیں اورثقہ زیارتی مقبول ہوتی ہے۔ تمام محدثین کا اتفاق ہے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ مقدمہ نووی ص 18، اور شرح ج1ص 472 میں لکھتے ہیں کہ جمہور محدثین اورعلماء فقہ اور اُصول اس پر متفق ہیں کہ ثقہ راوی کی زیارت واجب القبول ہے نواب صدیق حسن خان رحمۃ اللہ علیہ بدورالیٰ حلہ ج 1ص 65 میں لکھتے ہیں ونتک نیست کہ زیارۃ ثقہ مقبول است۔ اسی طرح مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ تحفۃ الاحوذی ج1ص 205میں لکھتے ہیں۔ دلیل:مسند حمیدی ج2 ص 277 میں روایت ہے:( حدثنا الحميدي قال ثنا الزهري) (حمید اور زہری کے درمیان کتابت کی غلطی کی وجہ سے سفیان کا لفظ ساقط ہوگیا) (حَدَّثَنَا عبداللّٰهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عبداللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ: «أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صلي اللّٰه عليه وسلم كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاَةَ، وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ فَلَا يَرْفَعُ وَلَا بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ) دلیل: مصنف ابن ابی شیبہ ج 1ص 160 اورطحاوی ج1ص 133 میں روایت ہے: ( وقال هو حديث صحيح عَنِ الْأسْوَدِ قَالَ رَأَيْتُ عُمَرَ ابْنَ الْخَطَّابِ يَرْفَعُ يَدَيْهِ في أوَّلِ تَكبيرَةٍ ثُمَّ لَا يَعُودُ) الجواہر النقی ص 75 میں ہے هذا سند علي شرط مسلم اور حافظ ابن حجر درایہ ص 85 میں لکھتے ہیں رواته ثقات۔ دليل:طحاوی ج1ص 110 اور ابن ابی شیبہ ص 159 میں روایت ہے: (عن ابْن كُلَيْب عَن أَبِيه أَن عليا كَانَ يرفع يَدَيْهِ علی أول تَكْبِيرَة من الصَّلَاة ثُمَّ لَا يَعُودُ)درایہ میں ص 85 ہے رواته ثقات حضرت مولانا سيد محمد انورشاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نیل الفرقدین ص109 میں لکھتے ہیں:( قال الزيلعي هو أثر صحيح وقال النبی على شرط مسلم) ان ہی دلائل پر اکتفا کرتا ہوں اگر اور ضرورت پڑی تو پھر بھی ان شاء اللہ
Flag Counter