”اگر آپ مجھے یہ ثابت کردیں کہ رکوع میں جاتے ہوئے اور اُٹھتے ہوئے اور دو رکعت کے بعد تیسری رکعت کے لیے جب ہم اٹھیں گے تو رفع یدین کریں گے اور تیسری اور چوتھی رکعت میں جب ہم رکوع میں جائیں گے اوراٹھیں گے تو رفع یدین دونوں دفعہ کریں گے۔ اگر یہ طریقہ رفع یدین نماز میں منسوخ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مندرجہ بالا بیان کے مطابق رفع یدین نہیں کرتے تھے نمازمیں اور اگر کرتے تھے تو بعد میں منسوخ فرمادیا ہو۔ اگر منسوخ ہونے کی قوی دلیل پیش کردیں تو میں نمازمیں رفع یدین رکوع والا چھوڑدوں گا۔ “امجد علی۔
اس پر قاری جمیل احمد صاحب نے رفع الیدین منسوخ ہونے کے دلائل لکھ کر امجد صاحب کو دیے اور ان کے آخر میں لکھا۔ نوٹ:اگر کسی بھائی کو ان احادیث پرکسی قسم کا کوئی اعتراض اور کوئی شک ہوتو وہ ان لکھے ہوئے صفحوں کے ساتھ جو صفحے خالی ہیں ان پراپنے اعتراض اور شک وشبہات لکھے ان شاء اللہ العزیز تسلی بخش جواب دیاجائے گا۔ فَتَدَبَّرُ وْا۔
جناب امجد علی صاحب نے قاری جمیل احمد صاحب کا رقعہ محترم مولانا حافظ عبدالمنان صاحب کی خدمت میں پیش کیا کہ آپ اس کی حقیقت واضح کریں۔ حافظ صاحب نے اس کا جواب لکھا اور امجد علی نے وہ جواب قاری جمیل احمد صاحب کے پاس پہنچایا۔ اس کے بعد دونوں حضرات میں مزید تحریری گفتگوہوئی۔ پہلی تحریر سمیت قاری صاحب نے چھ رقعے لکھے۔ حافظ عبدالمنان صاحب نے بھی جواب میں چھ رُقعے لکھے۔ ان کا آخری رقعہ 26 ذوالقعدہ 1402ہجری کا لکھا ہوا قاری جمیل احمد صاحب کو پہنچا مگر آج شعبان 1408ھ تک ان کا جواب نہیں آیا۔
اللہ تعالیٰ نور دین خادم صاحب کو جزائے خیر عطا فرمائے جنھوں نے دونوں حضرات کی تحریریں افادہ عام کے لیے شائع کرنے کا اہتمام فرمایا
|