بھی کی ہے چنانچہ تفصیل آرہی ہیے۔ ان شاء اللہ۔
ثالثاً: صاحب تحریر لکھتے ہیں” یہی وجہ ہے کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے ہاتھ چھوڑنے کی اختیار کی ہے“ پتہ چلا صاحب تحریر کے ہاں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ زیر ناف ہاتھ باندھنے کو بھی سنت نہیں مانتے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب بھی یہی ہے کہ وہ بھی زیر ناف ہاتھ باندھنے کو سنت نہیں مانتے اور ناف سے اُوپر ہاتھ باندھنے کے قائل ہیں۔ پھر امام احمد بھی زیر ناف ہاتھ باندھنے کو سنت نہیں مانتے تو یہ ائمہ ثلاثہ زیرناف ہاتھ باندھنے کے سنت ہونے کے منکر ہیں تو اب صاحب تحریر سے ہم پوچھتے ہیں آیا وہ ان تینوں اماموں کو اپنے فتویٰ باتقویٰ کی رُو سے واقعی بدعتی ہی سمجھتے ہیں؟غور کا مقام ہے اس کی کیا دلیل ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ زیر ناف ہاتھ باندھنے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سمجھتے تھے؟اس تحریر میں تو انہوں نے اس کی بھی کوئی دلیل پیش نہیں کی سوچیں کہیں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بھی اس فتویٰ کی رو سے بدعتی نہ بن جائیں۔
رابعاً: معلوم ہے کہ رکوع والا رفع الیدین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، چنانچہ بہت سے حنفی بزرگوں نے بھی اس کے سنت ہونے کی تصریح فرمائی ہے، ادھر بہت سے حنفیوں کا اس سنت سے انکار کرنا اور اس کا مذاق اڑانا مشہور زمانہ ہے، حتیٰ کہ خود امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق علامہ زیلعی حنفی نصب الرایہ میں امام بخاری کی کتاب جزء رفع الیدین کے حوالہ سے لکھتے ہیں:
(وكان ابن المبارك يرفع يدي وهو أعلم أهل زمانه فيما يعرف , ولقد قال ابن المبارك . : صليت يوما إلى جنب النعمان فرفعت يدي فقال لي أما خشيت أن تطير قال: فقلت له : إذا لم أطر في الأولى لم أطر في الثانية : قال وكيع : رحم اللّٰه ابن المبارك، كان حاضر الجواب، انتهى كلامه)
”اورابن مبارک رفع الیدین کیا کرتے تھے اور معروف ومعلوم میں ہے کہ وہ اپنے زمانہ والوں سے زیادہ علم والے تھے اور تحقیق ابن مبارک نے بیان
|