Maktaba Wahhabi

44 - 896
يكون ضعفه ناشئا من ضعف حفظ راويه، مع كونه من أهل الصدق والديانة، فإذا رأينا ما رواه قد جاء من وجه آخر عرفنا أنه مما قد حفظه، ولم يختل فيه ضبطه له .وكذلك إذا كان ضعفه من حيث الإرسال، زال بنحو ذلك، كما في المرسل الذي يرسله إمام حافظ، إذ فيه ضعف قليل يزول بروايته من وجه آخر .ومن ذلك ضعف لا يزول بنحو ذلك، لقوة الضعف، وتقاعد هذا الجابر عن جبره ومقاومته، وذلك كالضعف الذي ينشأ من كون الراوي متهما بالكذب أو كون الحديث شاذا) (مقدمہ ابن الصلاح ص 31۔ 30) حاصل عبارت یہ ہے کہ ضعف متفاوت ہوتے ہیں کچھ ضعف تو تعدد طرق سے زائل ہوجاتے ہیں مثلاً وہ ضعف جس کا منشا سچے اور دیانت دار راوی کے حفظ کی کمزوری ہو اور وہ ضعف جو بوجہ ارسال ہو اور کچھ ضعف تعدد طرق سے زائل نہیں ہوتے۔ مثلاً وہ ضعف جس کا منشا راوی کا متہم بالکذب ہونا یا روایت کا شاذ ہونا ہو اور واضح ترین بات ہے کہ آپ کی پیش کردہ روایت”لَوْ عَاشَ“ الخ کا ضعف ان ضعفوں میں شامل ہے جو تعدد طرق سے زائل نہیں ہوتے کیونکہ اس کے ایک راوی ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان واسطی کی بعض محدثین نے تکذیب بھی کی ہے چنانچہ میزان کے حوالہ سے پہلے لکھا جاچکا ہے لہٰذا ملا علی قاری وغیرہ کی بات”يقوي بعضها ببعض“ اس جگہ درست نہیں۔ اس روایت کے آپ کی طرف سے پیش کردہ ابن ماجہ والے طریق کا حال تو آپ سن ہی رہے ہیں۔ آپ اس کےدوسرے طریق بھی نقل فرمائیں تاکہ آپ کو ان کا حال بھی سنادیا جائے۔ آپ لکھتے ہیں”مؤمنانہ حسن ظنی سے کام لیاجائے تومسئلہ آسان ہوسکتا
Flag Counter