ہمارے اس کو تسلیم کرنے کا نظارہ دیکھ لیں خواہ مخواہ لفاظی کے ذریعے رعب جمانے کی کوشش نہ کریں۔ یادرہے اگر بفرض محال آپ اس روایت” لَوْ عَاشَ “الخ کا قابل استدلال ہونا ثابت فرما بھی لیں تو بھی اس سے آپ کا دعویٰ”حضرت مرزا غلام احمد قادیانی امتی نبی ہیں“ہرگز ہرگز ثابت نہیں ہوگا۔ اولاً تو اس لیے کہ حضرت مرزا صاحب تو غلام احمد بن چراغ بی بی ہیں نہ کہ ابراہیم بن حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ثانیاً اس لیے کہ لفظ ”لو“امتناع اور کسی چیز کے ناممکن ہونے کو واضح کرنے کے لیےاستعمال کیا جاتا ہے۔
آپ لکھتے ہیں”معترض سے زیادہ علم وفہم رکھنے والے بزرگ حضرت ملا علی القاری نے اس اعتراض کو بیان کرکے فرمایا:
”في مسنده أبا شيبة [1]إبراهيم بن عثمان الواسطي وهو ضعيف، لكن له طرق ثلاثة يقوي بعضها ببعض“الخ
(بزعم شما آپ کا رقعہ نمبر2ص2)
جواباً گزارش ہے کہ آپ نے دیکھ لیا کہ آپ سے زیادہ علم وفہم رکھنے والے بزرگ حضرت ملا علی قاری ہی ابراہیم بن عثمان کو ضعیف کہہ اور قرار دےرہے ہیں تو معلوم ہواکہ آپ کی بات” صحاح ستہ میں آنے کے سبب آپ اسے قبول کرنے کے پابند ہیں“ کو آج سے بہت پہلے حضرت ملا علی قاری ایسے بزرگ بھی رد فرماچکے ہیں رہا تعدد طرق سے قوت حاصل ہونے والامسئلہ تو وہ کوئی قاعدہ کلیہ نہیں چنانچہ حافظ ابن الصلاح رحمۃ اللہ علیہ اپنی مشہور ومعروف اور مستند کتاب علوم الحدیث میں تعدد طرق سے قوت حاصل ہونے پر مبنی ایک سوال نقل فرما کر لکھتے ہیں:
(وجواب ذالک انہ «ليس كل ضعف في الحديث يزول بمجيئه من وجوه، بل ذلك يتفاوت :فمنه ضعف يزيله ذلك، بأن
|