Maktaba Wahhabi

396 - 896
ضعیف روایت سے بھی استدلال درست ہے لہٰذا کسی عالم کے کسی روایت سے استدلال سے اس روایت کے اس عالم کے ہاں صحیح ہونے پر استدلال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ثابت کیا جائے کہ وہ عالم صحیح کے سوا کسی اور روایت سے استدلال نہیں کرتا نہ حسن سے اور نہ ہی ضعیف سے تو صاحب رسالہ کو چاہیے کہ وہ ثابت فرمائیں کہ حافظ ابن تیمیہ جس روایت سے استدلال فرمائیں وہ روایت ان کے نزدیک صحیح ہی ہوتی ہے نہ حسن اور نہ ضعیف پھر وہ ان کے حماد بن شعیب کی روایت سے استدلال کرنے سے اس کی روایت کو ان کے نزدیک صحیح قراردینے میں حق بجانب تصور کئے جائیں گے تاہم ان کی اس ساری کاوش سے جو بات ثابت ہو گی وہ صرف یہ ہے کہ حافظ ابن تیمیہ اس روایت کو صحیح سمجھتے ہیں جس سے مسئلہ ثابت نہیں ہو گا کیونکہ وہ روایت واقع میں قابل احتجاج نہیں اور نہ ہی شواہد ومتابعات میں پیش ہونے کے قابل۔ حضرت المؤلف تحریر فرماتے ہیں: ”علاوہ ازیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اثر کے صحیح ہونے کا ایک زبردست قرینہ یہ بھی ہے کہ جو لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خاص صحبت یافتہ اور شاگرد اور ان کے مستقر خلافت کوفہ میں رہتے تھے آپ کے بعد وہ بھی بیس رکعتیں پڑھتے تھے چنانچہ شتیر بن شکل سوید بن غفلہ، عبدالرحمان بن ابی بکرہ، سعید بن ابی الحسن اور علی بن ربیعہ جیسے جلیل القدر تابعین بھی اسی تعامل کی پابندی کرتےرہے۔ “(ص19، 20) 1۔ اولاً:شتیر بن شکل کے اثر پر کچھ کلام گزر چکا اسے ملاحظہ فرمائیں مزید برآں یہ کہ اس کی سند میں عبداللہ بن قیس راوی مجہول ہے چنانچہ میزان میں لکھا ہے:(عبداللّٰه بن قيس عن ابن عباس، لا يدرى من هو؟ تفرد عنه أبو إسحاق)1ھ ”عبداللہ بن قیس، ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کوئی پتہ نہیں چلتا کہ وہ
Flag Counter