2۔ ( أن عمر أمر أُبَيًّا وتَمِيماً أن يقوما للناس ثلاث عشرة ركعة وفي رواية)
3۔ (اِنَّهُمْ كَانُوْا يَقُومُونَ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً وفي رواية)
4۔ (أن علياً رضي اللّٰه عنه أَنَّهُ كَانَ يَؤُمُّهُمْ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً، وَيُوتِرُ بِثَلَاثٍ قال وفيه قوة)
1۔ ترجمۃ: اور بیہقی نے ابن ابی شیبہ کے طریق سے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت بیان فرمائی پھر فرمایا کہ یہ ضعیف ہے۔
2۔ اور کئی روایات ذکر فرمائیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ابی رضی اللہ عنہ اور تمیم داری رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ لوگوں کو بیس رکعت قیام کروائیں۔
3۔ اور ایک روایت میں ہے کہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بیس رکعت قیام کرتے تھے۔
4۔ اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ لوگوں کو بیس رکعت کے ساتھ امامت فرماتے تھے اور تین وتر پڑھاتے تھے(بیہقی نے) کہا اور اس میں قوت ہے۔ اھ
فہم میں سہولت کی خاطر نمبر دئیے گئے ہیں اب سنن کبریٰ للبیہقی کی روایات ملاحظہ فرمائیں اور ان میں بھی نمبر ہم نے اپنی طرف سے دئیے ہیں تاکہ بات کو بآسانی سمجھا جاسکے نیز اسانید کو ہم نے ذکر نہیں کیا کیونکہ ان سے اکثر پر تو کلام گزر چکا اور باقی ایک آدھ پر کلام آرہا ہے اس مقام پر تو صرف سبل السلام کی غلطی واضح کرنا مقصود ہے بیہقی کی وہ روایات یہ ہیں:
1۔ ( عن ابن عباس قال: كان النبى صلى اللّٰه عليه وسلم يصلى فى شهر رمضان فى غير جماعة بعشرين ركعة والوتر. تفرد به أبو شيبة إبراهيم بن عثمان العبسى الكوفى وهو ضعيف)
|