Maktaba Wahhabi

336 - 896
الْأَثَرِ فَعَلَيْهِ أَنْ يُثْبِتَ كَوْنَهُ ثِقَةً قَابِلًا لِلِاحْتِجَاجِ . وَأَمَّا قَوْلُ النيموي : هُوَ مِنْ كِبَارِ الْمُحَدِّثِينَ فِي زَمَانِهِ، لَا يُسْأَلُ عَنْ مِثْلِهِ، فَمَا لَا يُلْتَفَتُ إِلَيْهِ . فَإِنَّ مُجَرَّدَ كَوْنِهِ مِنْ كِبَارِ الْمُحَدِّثِينَ لَا يَسْتَلْزِمُ كَوْنَهُ ثِقَةً ) (ج2 ص 75) ”اوران کے لیے اس روایت کے ساتھ بھی استدلال کیا گیا ہے جو بیہقی نے اپنی سنن میں سائب بن یزید سے بیان کی ہے کہ ہم عمربن خطاب کے زمانہ میں بیس رکعت اور وتر کے ساتھ قیام کرتے تھے اور اس کی اسناد کو سبکی نے شرح منہاج میں اور علی قاری نے موطا کی شرح میں صحیح قراردیا ہے۔ میں کہتا ہوں اس کی سند میں ابوعثمان بصری ہے جس کا نام عمر وبن عبداللہ ہے نیموی نے آثار السنن کی تعلیق میں کہا ہے کہ”مجھے اس شخص کا علم نہیں ہوا جس نے اس کا ترجمہ(احوال) ذکر کیا ہو“۔ نیموی کی بات ختم ہوئی۔ ، میں کہتا ہوں کہ مجھے بہت زیادہ جستجو کے باوجود اس کے حالات نہیں مل سکےاور اس کی سند میں ابوطاہر فقیہ بھی ہے جو بیہقی کا شیخ ہے اور مجھے کسی کا علم نہیں ہوسکا جس نے اسے ثقہ قراردیا ہو تو جو شخص اس اثر کے صحیح ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اس کی ذمہ داری ہے کہ یہ ثابت کرے کہ یہ دونوں راوی ثقہ تھے اور اس قابل تھے کہ ان سے دلیل پکڑی جاسکے۔ اگر تم کہو کہ تاج سبکی نے طبقات کبری میں ابوبکر فقیہ کے ترجمہ میں کہا ہے کہ”وہ اپنے زمانہ میں محدثین اورفقہاء کے امام تھے اور وہ ادیب اور عربیت کے ماہر شیخ تھے۔ انہیں شروط کی معرفت میں بڑی مہارت حاصل تھی اور انہوں نے اس کے بارے میں کتاب بھی لکھی۔ سبکی کا کلام ختم ہوا تو یہ کلام دلیل ہے کہ وہ ثقہ تھے تو میں کہوں گا۔ اس عبارت میں ان کے ثقہ اور قابل حجت ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہاں اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ حدیث فقہ عربیت اور معرفت
Flag Counter