ذَلِكَ سُنَّتَهُ. إذْ سُنَّتُهُ بِمُوَاظَبَتِهِ بِنَفْسِهِ أَوْ إلَّا لِعُذْرٍ، وَبِتَقْدِيرِ عَدَمِ ذَلِكَ الْعُذْرِ إنَّمَا اسْتَفَدْنَا أَنَّهُ كَانَ يُوَاظِبُ عَلَى مَا وَقَعَ مِنْهُ وَهُوَ مَا ذَكَرْنَا فَتَكُونُ الْعِشْرُونَ مُسْتَحَبًّا وَذَلِكَ الْقَدْرُ مِنْهَا هُوَ السُّنَّةُ كَالْأَرْبَعِ بَعْدَ الْعِشَاءِ مُسْتَحَبَّةٌ وَرَكْعَتَانِ مِنْهَا هِيَ السُّنَّةُ. (ج3ص192)
”ابن ہمام نے فرمایا:ہم نے اس سے پہلے باب النوافل میں ابو سلمۃ بن عبدالرحمٰن کی روایت ذکر کی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے سوال کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز رمضان میں کس طرح تھی تو انھوں نے فرمایا کہ آپ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ الحدیث۔ اور جو ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں طبرانی اور بیہقی نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے کہ آپ رمضان میں وتر کے علاوہ بیس رکعت پڑھتے تھے تو وہ ابو بکر بن ابی شیبہ کے دادا ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان کی وجہ سے ضعیف ہے اور اس کے ضعف پر اتفاق ہے علاوہ ازیں وہ صحیح کے بھی خلاف ہے ہاں بیس رکعتیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں ثابت ہیں۔ چنانچہ مؤطا میں یزید بن رومان سے ہے کہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں تئیس رکعت قیام کرتے تھے اور بیہقی نے المعرفۃ میں سائب بن یزید سے بیان کیا ہے کہ ہم عمر بن خطاب کے زمانہ میں بیس رکعت اور وتر کے ساتھ قیام کرتے تھے۔ نووی نے خلاصہ میں کہا ہے کہ اس کی اسناد صحیح ہے اور مؤطا میں ایک روایت گیارہ رکعت پڑھنے کی ہے اور دونوں کو اس طرح جمع کیا گیا ہے کہ پہلے گیارہ پڑھتے تھے پھر بیس پڑھنے کا دستور ہو گیا کیونکہ بعد میں آنے والوں کو یہی تعداد وراثۃ ملی ہے اس ساری بحث سے حاصل یہ ہوا کہ قیام رمضان وتر سمیت گیارہ رکعت باجماعت سنت ہے آنحضرت
|