Maktaba Wahhabi

324 - 896
معارضة بين الصحيح والضعيف واما ثالثا فلان تصريح الباجي في شرح الموطا وتصريح غيره بحمل حديث عائشة ما كان يزيد في رمضان ولا في غيره علي احدي عشرة ركعة علي حاله الغالب انما هو بالنسبة الي حديثها وحديث ابن عباس ن الذي فيه ذكر ثلاث عشرة ركعة لا بالنسبة حديث ابن عباس ن الذي فيه ذكر عشرين ركعة فتامل) ترجمہ:”میں کہتا ہوں اس کلام میں کئی طرح سے نظر ہے۔ اولاً اس لیے کہ زیلعی، ابن ہمام، سیوطی اور زرقانی وغیرہ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ صحیح کو لے لینے اور ضعیف کو ترک کرنے کے قبیل سے ہے نہ کہ اس قبیل سے جسے اصطلاح میں راجح کا اخذ اور مرجوح کا ترک کہا جاتا ہے اور ان دونوں میں فرق ہے۔ ثانیاً اس لیے کہ تطبیق وہاں کی جاتی ہے جہاں دونوں ٹکرانے والی روایتیں مقبول ہوں اور یہاں یہ صورت نہیں کیونکہ دونوں متعارض روایتوں میں سے ایک صحیح ہے جس کی صحت پر سب کا اتفاق ہے اور دوسری ضعیف ہے جس کے ضعف پر سب کا اتفاق ہے بلکہ ابو شیبہ کو شعبہ نے جھوٹا قراردیا ہے جیسا کہ عمدہ میں ہے اور اصل بات یہ ہے کہ یہاں دونوں روایتوں میں بالکل ٹکراؤ نہیں ہے کیونکہ صحیح اور ضعیف کے درمیان ٹکراؤ نہیں ہوتا۔ ثالثاً اس لیے کہ باجی نے شرح موطا میں جو تصریح کی ہے اور دوسرے علماء نے بھی اس کی تصریح کی ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی حدیث ”کہ آپ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ “آپ کے اکثر اوقات پر محمول ہے تو ان علماء کا یہ ارشاد حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی اس حدیث پر اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس حدیث کے بارے میں ہے جس میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تیرہ رکعات کا ذکر کیا ہے اس حدیث
Flag Counter