Maktaba Wahhabi

323 - 896
وتر پڑھتے تھے۔ اس روایت کی سند میں المصنف والے ابن ابی شیبہ کا دادا ابراہیم بن عثمان ابو شیبہ ہے اور اس میں محدثین نے طعن کیا ہے اور میں نے اس پر آئمہ کا کلام تحفۃ الاخیار میں ذکر کیا ہے۔ علماء کی ایک جماعت نے جن میں زیلعی، ابن ہمام، سیوطی اور زرقانی شامل ہیں کہا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہونے کے ساتھ حضرت عائشہ کی گیارہ سے زیادہ نہ پڑھنے والی حدیث سےٹکراتی بھی ہے اس لیے صحیح کو قبول کیا جائے گا اور اس کے غیر کو چھوڑ دیا جائے گا اور اس میں نظرہے کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی حدیث کے صحیح ہونے اور ابن عباس کی حدیث کے ضعیف ہونے میں تو کوئی شبہ نہیں لیکن راجح کو لےلینا اور مرجوح کو چھوڑ دینا صرف اس جگہ ہوتا ہے جہاں دونوں حدیثوں میں ایسا تعارض ہو کہ تطبیق ممکن نہ ہو اور یہاں دونوں میں تطبیق ہو سکتی ہے اس طرح کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی حدیث کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اکثر اوقات پر محمول کیا جائے جیسا کہ باجی نے موطا کی شرح میں اس کی صراحت کی ہے اور ان کےعلاوہ کئی علماء نے بھی یہ بیان کیا ہے اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کا یہ مطلب لیا جائے کہ یہ بعض اوقات میں تھا۔ مولانا عبدالحی کاکلام ختم ہوا۔ (اقول:وفيه نظر اما اولا فلان ما قاله الزيلعي وابن الهمام والسيوطي والزرقاني وغيرهم انما هو من باب الاخذ بالصحيح وطرح الضعيف وليس من باب الاخذ بالراجح وترك المرجوح اصطلاحا وبينهما فرق:واما ثانيا فلان الجمع انما يوخذ به اذا كان المتعار ضان مقبولين والامر ههنا ليس كذالك اذا احد المتعار ضين صحيح مجمع علي صحته والثاني ضعيف متفق علي ضعفه بل ابوشيبة قد كذبه شعبة كما في العمدة والحق انه لا معارضة ههنا اصلاً اذلا
Flag Counter