Maktaba Wahhabi

320 - 896
ترجمہ:”عام علماء کہتے ہیں کہ تراویح اور صلاۃ اللیل (تہجد) دو مختلف قسم کی نمازیں ہیں اور میرے نزدیک مختاریہ ہے کہ یہ دونوں ایک ہی ہیں۔ اگرچہ ان کی صفات مختلف ہیں جیسا کہ تراویح پر ہمیشگی نہ ہونا اور اسے جماعت کےساتھ ادا کرنا اور اکبھی اسے رات کے شروع میں ہی پڑھ لینا اور کبھی اسے سحری تک پہنچا دینا اس کے خلاف تہجد رات کے آخری حصے میں ہوتی تھی اور اس میں جماعت نہ تھی۔ لیکن ان صفات کے اختلاف کو اس بات کیدلیل بنا لینا کہ یہ دونوں مختلف قسم کی نمازیں ہیں میرے نزدیک اچھی بات نہیں ہے بلکہ دراصل یہ ایک ہی نماز تھی جب اسے پہلے پڑھا گیا تو اس کا نام تراویح رکھ لیا گیا اور جب پچھلے حصہ میں پڑھا گیا تو اس کا نام تہجد رکھ لیا گیا اور اس ایک نماز کی صفات جدا جدا ہونے کی بنا پر اس کے دو نام رکھ لینا کوئی انوکھی بات نہیں کیونکہ الگ الگ نام رکھ لینے میں کوئی پابندی نہیں جب امت اس پر مجتمع ہو اور ان دونوں نمازنوں کا الگ الگ قسم کی نماز ہونا صرف اس صورت میں ثابت ہو سکتا ہے جب یہ ثابت ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح پڑھنے کے ساتھ تہجد بھی ادافرمائی ہو۔ پھر محمد بن نصر نے قیام اللیل میں کئی عنوان مقرر فرمائے ہیں اور لکھا ہے کہ بعض سلف کا مذہب یہ ہے کہ جو شخص تراویح پڑھے اس کے لیے تہجد منع ہے اور بعض نے کہا ہے کہ نفل پڑھنے مطلقاً جائز ہیں تو ان بزرگوں کا اختلاف اس بات کی دلیل ہے کہ یہ دونوں نمازیں ان کے نزدیک ایک ہی ہیں اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عمل بھی اس کی تائید کرتا ہے کیونکہ وہ تراویح رات کے آخری حصے میں اپنے گھر میں ادا فرماتے تھے حالانکہ انھوں نے خود لوگوں کو حکم دیا تھا کہ وہ یہ نماز مسجد میں باجماعت ادا کریں لیکن اس کے باوجود خود اس میں شریک نہیں ہوتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل یہ نماز رات کے آخری حصے میں ادا کرنے کا تھا پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کو اس بات سے یہ کہہ کر آگاہ فرمایا کہ یہ نماز جسے تم رات کے شروع حصے میں پڑھتے ہو اگر رات کے آخری حصہ میں پڑھو تو اس کا ثواب زیادہ ہے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز کو ایک ہی قراردیا اور اسے رات کے آخری حصہ میں پڑھنا شروع رات میں پڑھنے سے زیادہ فضیلت کا باعث قراردیا۔ عام علماء نے آپ کا اصل مطلب نہ سمجھ سکنے کی وجہ سے اسے الگ الگ دو نمازیں ہونے کی دلیل بنا لیا اور سمجھ لیا کہ یہ دو الگ الگ نمازیں تھیں۔ پھر تراویح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تیرہ رکعات سے زیادہ ثابت نہیں مگر ضعیف سند سے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ نفس الامر میں تیرہ سے زیادہ رکعتیں نہیں تھیں بلکہ میں تو صرف صحیح سند کے ساتھ تیرہ سے زیادہ رکعتوں کے ثبوت کا انکار کر رہا ہوں۔ اب اس سے زیادہ کا حال ہم سے پوشیدہ ہے ہو سکتا ہے کہ آپ نے
Flag Counter