Maktaba Wahhabi

309 - 896
کلی قوانین سے چشم پوشی کرنے کا مجرم ٹھہرایا۔ سارا مقصد یہ ہے کہ راویوں کے ثقہ یا ضعیف ہونے کی بنا پرحدیث کو صحیح یا ضعیف قرارنہ دیا جائے۔ صرف اپنے خیالی اقتضاء آیات اور خود ساختہ قوانین کلیہ کے ذریعے راویوں کی احادیث کو رد کرنے اور ضعیف وکذاب راویوں کی احادیث کو ترجیح دینے کے حق کے حق کو تسلیم کیاجائے خواہ وہ اقتضاء آیات کوئی صاحب کچھ سمجھتے ہوں اور کوئی کچھ فرمائیے حدیث کا کوئی بڑے سے بڑا منکر بھی اس سے زیادہ کیا کہہ سکتا ہے؟وہ بھی تو قرآنی آیات کے اقتضاء اور اسلام کے کلی قوانین کے ذریعے ہی احادیث کو رد کرتے ہیں۔ اصول حدیث کےفن اور رجال کی کتابوں سے ان حضرات کو جو روحانی اذیت اور دلی بغض ہے وہ اس عبارت کے لفظ لفظ سے ظاہر ہے۔ دور حاضر کے ایک مشہور بزرگ نے یہی روش اختیارکرکے حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے کے فیصلے میں اسناد کی اہمیت کو فقہاء کی فقاہت کے مقابلے میں کمتر قرار دیا ہے۔ حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہ کے بقول :”مولانا یہاں قادیانی شاعری کا لبادہ زیب تن فرماتےہیں۔ “فقیہ کاتعارف اس انداز سے کراتے ہیں کہ: ”اس کی روح محمدی میں گم ہو جاتی ہے۔ اس کی نظیر بصیرت نبوی کے ساتھ متحد ہو جاتی ہے۔ اس کا دماغ اسلام کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے۔ “(تفہیمات:ص324) پھر فرماتے ہیں: ”اس مقام پر پہنچ جانے کے بعد انسان اسناد کا زیادہ محتاج نہیں رہتا، وہ اسناد سے مدد ضرور لیتا ہے مگر اس کے فیصلے کا مدار اسناد پر نہیں ہوتا وہ بسا اوقات ایک غریب، ضعیف، منقطع السند، مطعون فیہ حدیث کو بھی لے لیتا ہے۔ اس لیے کہ اس کی نظر اس افتادہ پتھر کے اندر ہیرے کی جوت دیکھ لیتی ہے۔ “الخ(ص324، منقول از حجیت حدیث :ص92)
Flag Counter