حدیث کے اعتراضات کا جواب دینے کےقائل بھی رہیں گے یا نہیں۔ وہ فن رجال، جس پر احادیث کی صحت وضعف کا مدار ہے، جو احادیث کی حفاظت کے لیے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معجزہ ہے اور جس فن کی سطوت وہیبت کے مقابلے میں غیر مسلم بھی اپنی تاریخ نویسی اور تحقیق کے معیار کوحقیرمحسوس کرتےہیں، اس فن رجال کو ایسے بے رحم طریقے سے اپنی تنقید کانشانہ بنایا کہ اس کی رو سے کوئی شخص نہ ضعیف کو ضعیف کہنے کی جراءت کرسکے نہ صحیح کو صحیح کہنے کی۔ اس کے لیے استحقاق واستہزا ء سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔ دارالعلوم دیوبند کےصدر المدرسین مولانا انور شاہ کے متعلق ان کے فرزند ارجمند”نقش دوام“ میں لکھتے ہیں:
”اختلافی حدیثوں کے بارے میں شوافع کے یہاں(أصح ما في الباب)(یعنی اس باب میں سب سےزیادہ صحیح حدیث یہ ہے) کاجوترجیحی طریقہ جاری ہے اس کا جب کبھی ذکر آتا تو فرماتے کہ لیجئے شوافع نے”پٹھے ٹٹولنے“ کا کام شروع کردیا۔ اس علمی لطیفہ کی دلچسپ تفصیل فاضل گیلانی سے سنئے، لکھتے ہیں کہ:”اسماء الرجال کی کتابوں کو اٹھا کرراوی پر جرح کرکے مخالف کی حدیث کو ناقابل لحاظ بنادینا اور صرف رجالی رجسٹروں کی مدد سے کسی روایت کو ترجیح دینا اور آثار صحابہ، قرآنی آیات کے اقتضاء اور اسلام کے کلی قوانین واصول سے چشم پوشی حضرت شاہ صاحب شافعیوں کے اس طرز عمل کو روایتوں کی ترجیح میں پسند نہیں فرماتے تھے۔ جرح کے لیے امالی رجسٹروں میں راوی کی کمزوریوں کو ٹٹولن سا کا نام انہوں نے پٹھا ٹٹولنا رکھ لیا تھا فرماتے کہ یہ تو قصابوں کا کام ہوا کہ جو جانور کمزور نظر آیا اسی کو پٹک کر ذبح کرڈالا۔ “(نقش دوام، ص 159)
پہلے تمام محدثین کو شوافع بنایا پھر محدثین کی بے نظیر کاوشوں کی تحقیر”رجالی رجسٹروں“ کی پھبتی کس کرکی۔ ساتھ ہی انہیں قرآنی آیات کے اقتضاء اور اسلام کے
|