ہے کہ موطا تو بنیادی طور پر امام مالک کی تصنیف ہے جو امام محمد نے ان سے روایت کی اور اس میں چند آثار واحادیث اپنے دوسرے اساتذہ کے بھی شامل کردئیے تفصیل کے لیے دیکھئے بستان المحدثین ودیگر کتب۔ رہ گئے امام طحاوی تو وہ واقعی حدیث کی تدوین میں شریک ہوئے اور اپنی طرف سے پوری کوشش اثبات حنفیت کی کی مگر محدث ہونے کی وجہ سے اس خود سپردگی کا مظاہرہ نہ کرسکے جس کی توقع ایک مکمل حنفی سے کی جاتی ہے نتیجہ یہ نکلا کہ اثبات حنفیت کو اپنا مقصد بنالینے کی وجہ سے محدثین(جو ہرتعصب سے آزاد ہوکرحدیث کے خادم تھے) کے ہاں بار پاسکے اور نہ احناف نے ہی انہیں پوری طرح قبول کرلیا۔ چنانچہ داخل درس ہونے کے باوجود حنفی اساتذہ وطلبہ کی دلچسپی اس کتاب کو حاصل نہ ہوسکی۔
نقش دوام میں لکھا ہے:
” امام طحاوی کی اس معرکۃ الآراء تصنیف سے خود حنفیہ کے حلقہ میں جو بے اعتنائی برتی جارہی ہے اس پر علامہ مرحوم کی بے چینی اور تاسف واضح کرچکا ہوں۔ یہ تو بار بار فرماتے تھے کہ مالک نے طحاوی سے جس قدر فائدہ اٹھایا احناف اس سے محروم رہے اور خود غریب طحاوی حنفیت کی وکالت ودفاع میں ہدف ملامت بن کر رہ گئے پچھلے دنوں دارالعلوم کے مجلس شوری کے اجلاس میں حضرات مدرسین کی مقدار اسباق زیر بحث تھیں طحاوی کی مقدار بہت کم رہی تو اراکین شوری اس تاسف کا اظہار کررہے تھے مولانا مفتی عتیق الرحمان جو طویل وتلخ بحثوں کو لطائف میں اڑانے کے مشاق تھے بولے کہ ”بھائی !ہمارے حضرت(مولانا انور) شاہ صاحب فرماتے تھے کہ جعفر کے ابا کے ساتھ کسی نے انصاف نہیں کیا(ابوجعفر امام طحاوی کی کنیت ہے) اس ظلم کو بھی کہ طحاوی کی مقدار کم ہوئی ہے مظالم علی الطحاوی میں شمار کرو۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ “(حاشیہ نقش دوام ص، 176)
|