بعد سلام پھیرتے اور ایک رکعت وتر پڑھتے“
آپ نے دیکھ لیا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا خود فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وتر ایک رکعت پڑھ لیا کر تے تھے۔ یہ جانتے ہوئے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کیسے فرماسکتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سارا سال تین وتر ادا کرتے ہیں۔ بحمد اللہ اہلحدیث ہی ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی مذکورہ بالا دونوں حدیثوں اور ایک وتر کی دیگراحادیث پر عمل کرتے ہیں۔ اس کے برعکس مقلدین حضرات ایک رکعت کو نماز نہ سمجھتے ہوئے ایک وتر کی تمام احادیث سے روگردانی کیے جارہے ہیں اور الزام دوسرں کو۔ کیسی جراءت ہے؟ لأن المرء يقيس على نفسه. بالکل وہی معاملہ ہے ان کا ؎
یہی الزام ہم کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا
قاضی صاحب کا اعتراض:
جناب فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی حدیث سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ”سارے سال میں چار چار رکعت اکٹھی ادا ہوتی تھیں“ اور یہ بھی غیر مقلدین کے ہاں متروک ہے۔
الجواب۔
اہل حدیث کے نزدیک نہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی حدیث متروک ہے نہ ہی کوئی اور حدیث۔ نہ معلوم قاضی صاحب اس قسم کی غلط بیانی کے کیوں درپے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ دوسروں کو اپنے آئینے میں دیکھتے ہیں۔ رہی سارا سال چار رکعت اکٹھی ادا ہونے والی بات۔ تو یہ حدیث میں کہیں مذکور نہیں اور نہ ہی حدیث کا مفہوم ایسا ہے۔ بلکہ یہ قاضی صاحب نے ماشاء اللہ اپنی طرف سے اضافہ فرمایا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا فرماتی ہیں:
(عن عائشةَ زوجِ النبيِّ صلَّى اللّٰه عليه وسلَّم، قالت: ((كان رَسولُ اللّٰهِ صلَّى اللّٰهُ عليه وسلَّم
|