Maktaba Wahhabi

221 - 896
اَلْوِتْرُ ثَلٰثُ رَكَعَاتٍ“وتر تین رکعت ہیں۔ لفظ ثلث (تین) اہم عدد ہے اور اپنے مفہوم میں خاص ہے۔ ایک دفعہ مسئلہ ثلثہ قروءپر بھی نظر ڈال کر دیکھ لیجئے۔ احناف کے نزدیک وتر تین رکعت سے کم ہیں اور نہ تین رکعت سے زائد۔ اب قاضی صاحب بتائیں گے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی حدیث میں وارد شدہ لفظ گیارہ رکعت کو اُن کے نزدیک وتر کہنا کیسے درست ہوا؟ آٹھواں جواب: 8۔ علامہ قسطلانی شافعی نے”حَمْلَه َأصْحَابُنَا عَلي الْوِتْر“فرمایا ہے۔ ”حَمْلَه َأصْحَابُنَا عَلي الْوِتْر فِي رَمَضَانَ“نہیں فرمایا۔ جس کا مطلب واضح ہے کہ علامہ قسطلانی شافعی فرما رہے ہیں کہ ہمارے اصحاب نےحضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی حدیث کو نماز وتر پر محمول کیا ہے۔ خواہ وہ نماز وتر رمضان کی ہو یا غیر رمضان کی۔ ہمارے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان میں راتوں کو ادا کردہ نفلی نماز کو تراویح بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ وتر تہجد، صلوٰۃ اللیل، قیام اللیل اور قیام رمضان بھی کہہ سکتے ہیں۔ بلکہ محققین احناف بھی اس کے قائل ہیں۔ واضح ہو کہ علامہ قسطلانی شافعی کا فرمان ہمارے مخالف نہیں ہے۔ البتہ اتنا افسوس ضرور ہے کہ قاضی صاحب کو اس سے ذرہ برابر بھی فائدہ نہ ہو سکا۔ نواں جواب: 9۔ حدیث کے تمام ہونے سے ہمارے استدلال میں کوئی ضعف نہیں آتا۔ کیونکہ عام سے خاص پر استدلال درست ہے اور آئمہ احناف بھی اس کے قائل ہیں۔ تب ہی اصول فقہ حنفی میں عام اور خاص کے مابین تعارض کو درست قراردیا گیاہے۔ پھر شکل اول میں شرطہ کلیۃً کبری بھی اس چیز کو بتلا رہی ہے کہ عام سے خاص پر استدلال کرنا طبعی امر ہے۔ تعجب یہ ہے کہ قاضی صاحب کا مسلک ہے اگر کوئی آدمی بلا جماعت نماز تراویح پڑھے۔ تو اس کے لیے سورۃ فاتحہ پڑھنا واجب ہے اور یہاں
Flag Counter