Maktaba Wahhabi

892 - 896
کی خدمت میں پیش کیا کہ اس کا تحریری جواب دیں لیکن ماسٹر صاحب نے صرف زبانی جواب اپنی سمجھ کے مطابق دیا، تحریری جواب نہ دیا۔ 22؍جولائی 1985ءعثمان ابراہیم(ایم پی اے) ایڈووکیٹ کے دفتر کے پاس ضلع کچہری گوجرانوالہ میں جناب مشتاق صاحب اور قاری عطاء اللہ صاحب دونوں کی مجھے سے ملاقات ہوئی۔ میں نے مشتاق صاحب سے پوچھا کہ کیا آپ ماسٹر امین صاحب سے میرے سوال کا تحریری جواب لائے ہیں؟انہوں نے کہاکہ کیسٹ میں موجود ہے۔ میں نےکہا:تحریری سوال کا تحریری جواب چاہیے۔ مشتاق صاحب نے رفع الیدین پر تحریری بات چیت کرنے کی دعوت دی۔ میں نے کہا آپ پہلے اس سوال کا جواب دے لیں پھر ان شاء اللہ اس پر بھی بات کرلیں گے مشتاق صاحب نے ماسٹر امین صاحب سے تحریری جواب لانے کے لیے چھ ماہ کی مہلت مانگی۔ پھر ایک ہفتہ میں مدرسہ نصرۃ العلوم سے تحریری جواب لانے کا وعدہ فرمالیا۔ میں نے ان کے مطالبہ پر سوال کی ایک اور نقل ان کے حوالے کردی۔ کچھ عرصہ بعدمشتاق صاحب نے نصرۃ العلوم سے تحریری جواب ملا کردیا اور ساتھ یہ شرط عائد کی کہ اس کا جواب مدرسہ کے کسی استاد سے لکھوایا جائے اور ساتھ مدرسہ کی مہر بھی ثبت ہو۔ جس طرح ہمارے جواب پر نصرۃ العلوم کی مہرثبت ہے۔ چنانچہ میں نے حافظ عبدالسلام بھٹوی مدرس جامعہ محمدیہ جی ٹی روڈ گوجرانوالہ سے گزارش کی کہ وہ اس جواب کی حقیقت واضح فرمائیں۔ چنانچہ انہوں نے جواب الجواب لکھا اور مہر جامعہ محمدیہ بھی ثبت کی۔ میں نے بذریعہ قاری عطاء اللہ صاحب مشتاق صاحب کے حوالے تحریر مذکور عیدالاضحیٰ قبل کردی۔ مشتاق صاحب نے کئی بار پوچھنے کےباوجود تادم تحریر آپ کی طرف سے کوئی جواب لا کر نہیں دیا اس لیے میں بذریعہ رجسٹری تینوں تحریریں، بندہ کا سوال، آپ کاجواب اور حافظ عبدالسلام صاحب کا جواب الجواب آپ کی خدمت میں بھیج رہا ہوں تاکہ آپ اس کا جواب لکھ سکیں۔ والسلام:محمد خالد بن منظور احمد ساکن سرفراز کالونی جی ٹی روڈ گوجرانوالہ
Flag Counter