وظیفہ ملتا ہے۔ خیر ہم نے مصلحت اسی میں سمجھی کہ ان سے روپے لے لیں چنانچہ انہوں نے ہم کو پچاس روپے دے دئیے میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ مال ہماے لیے جائز نہیں ہے۔ مدرسہ کی رقم ہم کیسے لے سکتے ہیں جبکہ ہم نے تحصیل علم کے لیے جانا ہی نہیں چنانچہ یہ طے پایا چونکہ میرا سفر منتہائے صوبہ بہار تھا اس لیے میں ہی جاتے ہوئے پچاس روپے دیوبند میں جمع کرادوں۔ چنانچہ میں دیوبند گیاتو اس وقت مولانا انور شاہ صاحب ترمذی کا سبق پڑھا رہے تھے اور ایک حدیث جو مسلک اہل حدیث کے موافق تھی اس کی بڑی پرزور تردید فرمارہے تھے۔ مجھ سے رہا نہ گیا تو کہہ ہی دیا کہ حضرت صاحب آپ حدیث پڑھا رہے ہیں یا اس کی تردید کررہے ہیں۔ انہوں نے پوچھا تو کون ہے؟میں نے کہا اہلحدیث ہوں۔ میرا یہ کہناہی تھا کہ طلباء مجھے زدوکوب کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ انور شاہ صاحب نے انہیں روکا اور مجھے کہا تم یہاں سے چلے جاؤ ورنہ طلباء تمھیں ماریں گے۔ میں نے کہا میں مجاہدین کا آدمی ہوں جہاں جاؤں گا تمھیں بدنام کروں گا۔ چنانچہ انور شاہ صاحب نےطلباء کو سختی سے روکا کہ انہیں کچھ نہ کہنا ورنہ تمھیں بدنام کردے گا۔ چنانچہ مجھے ایک طالب علم کے سپرد کیا جس کے متعلق غالباً انور شاہ صاحب جانتے تھے کہ وہ ابھی اصل میں اہلحدیث ہے جب وہ طالب علم مجھے اسٹیشن پر چھوڑنے آیا تو اس نے بتایا کہ ہم تین سو اہلحدیث طلباءہیں جو یہاں پڑھتے ہیں چونکہ ہماراکوئی اتنا بڑا مدرسہ نہیں ہے جس میں ہم جاسکیں دہلی کا مدرسہ رحمانیہ اور امرتسر کا مدرسہ غزنویہ اتنے چھوٹے ہیں کہ اتنے زیادہ طلباء کا انتظام نہیں کرسکتے اس لیے ہم مجبوراً یہاں پڑھتے ہیں اور حنفی بن کر پڑھتے ہیں ورنہ ہم کوداخل ہی نہیں کرتے۔
|