احناف فقیہ اور مجتہد تھے ان کی روایت کردہ حدیث کو انھوں نے حجت قراردیا کہ اس کے مقابلے میں قیاس کو ترک کردیا جائے گا چنانچہ حنفی اصول فقہ کی مسلم کتاب ”نور الانوار“میں ہے:
(والراوي إن عرف بالفقه والتقدم في الاجتهاد كالخلفاء الراشدين والعبادلة كان حديثه حجة يترك به القياس)
”یعنی اگر راوی فقہ اور اجتہاد کے اندر مہارت سے معروف ہے جیسا کہ خلفائے راشدین ہیں ان کی حدیث حجت ہوگی اس کے ساتھ قیاس کو ترک کردیا جائے گا۔ “
دوسری قسم وہ احادیث جو ان صحابہ نے روایت کی ہیں جو بقول احناف عدالت اور ضبط میں معروف تھے مگر فقہ میں نہیں ان کی حدیث قیاس کے مطابق ہوگی تو اس پر عمل ہو گا اگر مخالف ہوگی تو ضرورت پڑنے پر اسے ترک کردیا جائے گا۔ چنانچہ نورالانوار ہی میں ہے:
(وإن كان الراوي معروفاً بالعدالة والحفظ دون الفقه، مثل أبي هريرة وأنس بن مالك رضي اللّٰه عنهما فإن وافق حديثه القياس عمل به، وإن خالفه لم يترك إلا للضرورة وانسداد باب الرأي، وذلك مثل حديث أبي هريرة في المصرّة)
”اوراگر وہ عدالت اور ضبط میں معروف ہے فقہ میں نہیں جیسے ابو ہریرہ اور انس ہیں تو اگر اس کی حدیث قیاس کے مطابق ہو تو اس پر عمل ہوگا اگر خلاف ہو تو اسے نہیں چھوڑا جائے گا مگر ضرورت کے وقت اور وہ ضرورت یہ ہے کہ اگر حدیث پر عمل کیا جائے تو رائے کا دروازہ بالکل بند ہو جائےگا۔ “
اس سے معلوم ہوا کہ احناف نے اپنے امام کے قیاس کے خلاف ان صحابہ کی روایت کردہ صحیح احادیث کو بھی حجۃ نہیں مانا ان کا قاعدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے
|