کے نزدیک صحیح نہیں“۔ یہ ابوداؤد پر بہتان ہے۔ ابوداؤد نے ابن مسعود کی روایت کے بارے کچھ نہیں فرمایا بلکہ براء بن عازب [1] کی روایت کے متعلق لکھا ہے کہ صحیح نہیں“۔ (اظہار ص 11)
اس کے بعد قاضی صاحب نے ابوداؤد کے ایک نسخہ سے عبداللہ بن مسعود کی روایت دو سندوں کے ساتھ سفیان سےنقل کرکے لکھاہے کہ اب آپ بتائیے ابوداؤد نے ان دوروایتوں کو کب غیر صحیح کہا ہے؟
قاضی صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ کتب حدیث کے کسی معتبر نسخے میں کوئی لفظ مذکور ہوتو وہ اس کتاب میں موجود مانے جاتے ہیں اگردوسرے نسخے میں وہ لفظ مذکور نہ بھی ہوں تو اس سے ان الفاظ کی نفی نہیں کی جاسکتی۔ اگرچہ ہندو پاک میں طبع کردہ عام نسخوں میں یہ الفاظ موجود نہیں۔ مگر ابوداؤد کے بہت سے نسخوں میں موجود ہے۔
1۔ علامہ ابن عبدالبر اپنی کتاب”التمہید“ شرح موطا میں عبداللہ بن مسعود کی روایت کے متعلق لکھتے ہیں:
(َفَاِنَّ اَبَا دَاوُدَ قَال هَذَا حَدِيثٌ مُخْتَصَرٌ مِنْ حَدِيثٍ طَوِيلٍ وَلَيْسَ هُوَ بِصَحِيحٍ عَلَى هَذَا الْمَعْنٰي)
” یعنی ابوداؤد نے کہا ہے یہ حدیث ایک لمبی حدیث سے مختصر ہے اور اس معنی پر صحیح نہیں“۔
اس سے ثابت ہواکہ حافظ ابن عبدالبر کے پاس موجود ابوداؤد کے نسخہ میں یہ الفاظ مذکور تھے۔
2۔ حافظ بن حجر نے” التلخيص“ میں ابوداؤد کا یہ قول ذکر کیاہے جس سے ثابت
|