روایت میں موجود ہی نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہو کہ”سجدہ کرتے وقت بھی اٹھاؤ“۔ نسائی میں بھی نہیں۔ اللہ سےڈرو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پربہتان باندھو یاپھر اس روایت کے لفظ اور باب لکھو“۔ (ایک دین ص42)
یہ گرفت اس بناپر تھی کہ نسائی میں یہ ذکر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےرکوع جاتے ہوئے، رکوع سے اٹھتے ہوئے، سجدہ کے وقت اور سجدہ سے سراٹھا کر رفع یدین کی۔ مگر نسائی کی کسی روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم موجود نہیں کہ آپ نے فرمایا ہو کہ”سجدہ کرتے وقت بھی ہاتھ اٹھاؤ“۔ قاضی صاحب نے یہ کام کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفع یدین کرنے کو آپ کا حکم بنادیا۔ اس پر میں نے مطالبہ کیا کہ حکم کےالفاظ کہاں ہیں روایت کے الفاظ اور باب لکھو۔
اب قاضی صاحب نے بجائے اس کے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر مشتمل الفاظ کاحوالہ لکھتے۔ اپنے الفاظ بدل دئیے اور لکھا کہ دیکھو یہ الفاظ نسائی کے فلاں صفحہ پر موجود ہیں۔
چنانچہ لکھتے ہیں:
”احقر نے یہ لکھا تھا کہ بعض وہ روایات جن میں رفع یدین کا ذکرآیا ہے تو انہی روایات میں یہ بھی آیاہے کہ آپ سجدہ کرتے وقت میں رفع یدین کرتے تھےالخ“۔ آگے لکھا ہے کہ حوالہ نسائی کے فلاں صفحہ پر موجودہے۔
مجھے حیرت ہوتی ہے کہ قیامت کے دن کا یقین رکھتے ہوئے اتنی صاف غلط بیانی کیسے کی جاسکتی ہے ؎
گوئیا باورنمے دارند روز داوری
کیں ہمہ قلب ودغل درکارد اور مے کنند
قاضی صاحب! آپ نے ہرگز یہ نہیں لکھاتھا کہ”بعض وہ روایات جن میں رفع یدین کا ذکر آیا ہے تو انہی روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرتے وقت میں
|