ہوگئی الخ“۔ (اظہار المرام ص 26)
قاضی صاحب نےیہاں نہ قرآ ن کی کوئی دلیل پیش کی نہ سنت کی کہ قبر پر جاکرمانگناجائز ہے شاہ ولی اللہ صاحب کاجو کلام انہوں نے نقل کیا ہے اس میں بھی یہ بات نہیں کہ شاہ صاحب نےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر جاکر روٹی، درہم، شفایا دشمنوں کی بربادی کی درخواست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کی اور آپ نے ان کی درخواست کو شرف قبول بخشا۔
بالفرض اگر وہ بھی کسی قبر پر جاکر کچھ مانگیں گے توان کی بات بھی غلط ہوگی۔ رجال کو پرکھنےکا پیمانہ حق ہے نہ کہ کہ حق کو پرکھنے کا پیمانہ رجال۔
قاضی صاحب کو یہ غورفرمانا چاہیےتھا کہ جس وقت انہوں نے اظہار المرام میں یہ الفاظ ثبت فرمائے تھے کہ ”ہمارے اکابر نے صرف آپ کے سلام کے بارے میں لکھا ہے“تو کیا وہ واقعی سچ لکھ رہے تھے کہیں انہوں نے جمنا والے بزرگوں کا کام تو نہیں کیا؟کیا قبر پر جاکر بھوک کی شکایت یا مہمان بنانے کی درخواست اور آپ کا روٹی دینا صرف سلام ہے؟خرچ ختم ہونے کی شکایت پر اشرفیاں ملنا صرف سلام ہے؟ مظلوموں کا ظالموں کی شکایت کرنا اور ان کی ستیاناس ہوناصرف سلام ہے؟احمد رفاعی کا دست بوس کی درخواست کرنا، آپ کاہاتھ نکلنا ان کا چومنا اور نوے ہزار کا مجمع کااسےدیکھنا صرف سلام ہے؟بیماروں کادعا کی درخواست لکھ کرحاجیوں کےہاتھ مدینہ بھیجنا اور قبر پر پڑھا جانا صرف سلام ہے؟ہرگز نہیں۔ یہ ساری تعلیم تو صاف اس بات کی ہے کہ قبر پر جاکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگو تو آپ دیتے ہیں اور ہمارے قاضی صاحب ہیں کہ اسے صرف سلام کہہ رہے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مولانا سہارنپوری نے یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ سے نہ ہوسکنے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوسکنے کا یقین پیدا کرنے کے لیے لکھا ہے ورنہ قبر پر درخواستوں کا کیا مطلب؟
سچی بات یہ ہے کہ مجھے قاضی صاحب کے متعلق بہت خوش فہمی تھی کہ اتنی
|