سفیان ثوری کے عاصم بن کلیب سے روایت کردہ الفاظ( ثُمَّ لَمْ يَعُدْ ) سے متعلق تصریح فرمادی کہ یہ الفاظ عاصم بن کلیب سے مروی کتاب میں موجود نہیں تو یہ اس روایت کی تضعیف ہی ہے سمجھنے کی خاطر آپ اپنے صاحب مشکوٰۃ اوردیگر بزرگوں کے قول(قال ابوداؤد:ليس هو بصحيح الخ) سےمتعلق فیصلہ”یہ الفاظ ابوداؤد میں نہیں ہیں“کو ملحوظ رکھیں اور غورفرمائیں آیا آپ نے یہ صاحب مشکوٰۃ اوردیگر بزرگوں کے مذکورہ بالا قول کی تضعیف کی تھی یا تصیح یا نہ تضعیف اور نہ ہی تصیح؟نیز غور فرمائیں آپ نے حدیث لکھی(وما حَدَّثكم ابنُ مسعودٍ فصَدِّقوه) اور ترمذی اور مستدرک حاکم کا حوالہ دیا اس پر بندہ نے لکھا کہ یہ حدیث ان دونوں کتابوں میں نہیں تو یہ میری طرف سے آپ کے بیان کی تضعیف تھی یاتصیح یا نہ تضعیف اور نہ ہی تصیح؟تو قاری صاحب آپ ذرا انصاف سے کام لیں زیادہ سے زیادہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جزء رفع الیدین میں مذکور امام احمد کے یحییٰ بن آدم کے حوالہ سے منقول فیصلہ میں ”ضعیف“ کالفظ موجود نہیں لیکن یہ کوئی اعتراض نہیں کیونکہ تضعیف روایت کے فیصلہ میں ضعیف کا لفظ بولنا کوئی ضروری نہیں، مشہور ہے(وَالمُنَاقَّشَةُ فيِ اللَّفُظِ لَيْسَتُ مِنْ دَأبِ الْمُحَصِّلِيْنَ) پھر قاری صاحب اور بنوری صاحب دونوں کو اعتراف ہے کہ امام بخاری نے اس حدیث پر کلام کیا اور اس کے ضعیف ہونے کا فیصلہ بھی دیا ہے اور امام بخاری کا فیصلہ تضعیف بھی یہی ہے کہ لفظ( ثُمَّ لَمْ يَعُدْ ) عاصم بن کلیب سے مروی کتاب میں موجود نہیں تو پھریحییٰ بن آدم کے حوالہ سے امام احمد کا یہی بات کہنا کیوں فیصلہ تضعیف نہیں؟آخر انصاف بھی کوئی شے ہے تو اس سوال وجواب سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ مولانا بنوری صاحب کی اس مقام پر حافظ ابن حجر پرمندرجہ بالا نکتہ چینی خواہ مخواہ ہے اس کا کوئی جواز نہیں۔
|