سکتے ہیں جو اس کے قائل ہوں، ہمارا تو یہ عقیدہ اور نظریہ نہیں ہے لہٰذا آپ کا یہ الزام ہم پر تو سرے سے وارد نہیں ہوتا۔ ذرا سوچ سمجھ کر بات کریں۔ آخر آپ میدانِ تحقیق میں ہیں۔
3۔ ثالثاً، ہم تو رفع الیدین بین السجدتین کی منسوخیت کے قائل ہی نہیں اور جو لوگ قائل ہیں ان کی دلیل ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث:
عَنْ ابْنَ عُمَرَ: (أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ، وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا كَذَلِكَ أَيْضًا وَقَالَ سَمِعَ اللّٰه لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، وَكَانَ لَا يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي السُّجُودِ) (صحیح بخاری جلد اول ص 102)
اور واضح بات ہے کہ اس حدیث سے رفع الیدین بین السجدتین کی منسوخیت پر استدلال کی کسی حد تک کوئی نہ کوئی وجہ تو ہوسکتی ہے خواہ وہ قاری صاحب کے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت سے نسخ رفع الیدین پر استدلال کی طرح ہی کیوں نہ ہومگر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی اس مذکورہ بالا روایت سے رکوع والے رفع الیدین کی منسوخیت پر استدلال کی تو کوئی وجہ جواز ہی نہیں ہاں کوئی دیوانہ اس حدیث سے اس مدعا پر استدلال کرے تو کرے کہ دیوانوں کے تو کام ہی نرالے ہوتےہیں اتنی بات ذہن نشین فرمالینے کے بعد قاری صاحب کے قول” جودلائل وہ اس رفع الیدین بین السجدتین کی منسوخیت کے قائم کرتے ہیں وہی دلائل رفع الیدین عند الرکوع وغیرہ کی منسوخیت کے احناف حضرات کی طرف سے الخ“ کو ملاحظہ فرمائیں اور بعد ازغور فرمائیں کہ اس میں کوئی ادنیٰ معقولیت بھی ہے؟ آخر (وَلَا يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي السُّجُودِ) سےرکوع والارفع الیدین کیونکر منسوخ ہوسکتا ہے؟جبکہ اسی حدیث میں رکوع والے رفع الیدین کا بھی ثبوت ہے۔
4۔ رابعاً، قاری صاحب اور ان کے ہمنوا وتروں کی تیسری رکعت والے رفع
|