ہونے پر استدلال میں رتی بھر بھی جان نہیں ہے۔
6سادساً، اس کو بھی ملحوظِ خاطر نہ رکھیں تو بھی اس روایت سے ترک رفع الیدین کے متاخر ہونے پر استدلال کسی کام کا نہیں کیونکہ اس روایت کےسیاق میں لفظ”اور“ ہے جو واوعاطفہ کا ترجمہ ہے اور اہل علم کو معلوم ہے کہ واوعاطفہ”اور“ کی تقدم وتاخر پر کوئی سی دلالت بھی نہیں ہوتی لہٰذا قاری صاحب کا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے بھی ترکِ رفع الیدین کےمتاخر ہونے پر تو استدلال بالکل ہی غلط ہے۔
7۔ سابعاً، اس بات کو بھی جانے دیجئے پھر بھی اس روایت سے رفع الیدین کی منسوخیت پر استدلال غلط ہے کیونکہ اس روایت میں آپ کے ایک فعل اور اسی فعل کے ترک کا ذکر ہے اور ترک کا فعل کی منسوخیت ہی پرمبنی ہونا کسی ایک دلیل سے بھی ثابت نہیں ہاںمنسوخیت کے علاوہ ترک کے کئی اور اسباب دلائل سے ثابت ہیں خواہ ترک متاخر ہی ہوتو قاری صاحب کے اس روایت میں مذکور ترک رفع الیدین کے ناسخ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے ثابت کریں کہ ترک کے فعل سے متاخر ہونے کی صورت میں منسوخیت فعل کے سوا ترک کا اور کوئی سبب نہیں ہواکرتا پھر اس روایت سے استدلال کریں۔
8۔ ثامناً، اس روایت میں رفع الیدین ترک کرنے کا ذکر ہے جس میں شروع نماز والے رفع الیدین کا ترک بھی شامل ہے۔ تو جس طرح دوسرے دلائل کی بنا پر اس شروع نماز والے رفع الیدین کو اس روایت سے منسوخ نہیں سمجھا گیا اسی طرح رکوع جاتے، اس سے سراٹھاتے وقت اور دوسری رکعت سے اٹھ کررفع الیدین کو بھی دوسرے دلائل کی بنا پر اس روایت سےمنسوخ نہیں سمجھا جائے گا شروع نماز والےرفع الیدین میں دوسرے دلائل کا اعتبار کرنا اور رکوع والے رفع الیدین میں دوسرے دلائل کااعتبار نہ کرنا سراسر ناانصافی ہے۔
|