بادلیل پر مشتمل ہے۔ دیکھئے جناب! اس جواب کے اندر بندہ نے جو دعویٰ کیا وہ یہ ہے” کہ موقوف روایت فعلی ہوخواہ قولی شرعی دلائل میں سے کوئی سی دلیل بھی نہیں کیونکہ شرعی دلائل صرف چار ہیں۔ 1۔ کتاب اللہ۔ 2۔ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشرط یہ کہ ثابت ہو، 3۔ اجماع اُمت۔ 4۔ قیاس صحیح“ تو بندہ نے اپنے جواب میں جو” موقوف روایت کے شرعی دلیل نہ ہونے والا“ دعویٰ کیا جواب ہی میں اس کی دلیل بھی پیش کردی تھی، لہٰذاقاری صاحب کا اسے”دعویٰ بغیر دلیل“ قراردینا سراسر غلط بیانی، محض ناانصافی اور واقع کی نری مخالفت ہے قاری صاحب! آپ بھی تو اللہ تعالیٰ سے ڈریے نا۔
ہاں اتنی بات ہےکہ بندہ نے شرعی دلائل صرف چار ہونے کو مشہورومعروف مسئلہ سمجھ کر کسی کتاب کا حوالہ نہیں دیاتھا تولیجئے اب حوالہ بھی پیش کردیا جاتا ہے تاکہ بزرگوں کی تسلی وتشفی ہوسکے تو شرعی دلائل کے صرف چار ہونے کئی ایک کتابوں کے حوالے دیے جاسکتے ہیں، مگر سردست حنفی مقلدین کے ہاں مسلم ومستند کتاب” تنقیح الاصول“ کے حوالہ پر ہی اکتفا کیاجاتا ہے چنانچہ صاحبِ تنقیح لکھتے ہیں(وَاُصُوْلُ الْفِقْهِ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةُ وَالْإِجْمَاعُ وَالْقِيَاسُ ) اورخود ہی اس کی شرح کرتے ہوئے ”توضیح“ میں تحریرفرماتے ہیں:
(لما ذكر أن أصول الفقه ما يبتنى عليه الفقه أراد أن يبين أن ما يبتنى عليه الفقه أي شيء هو؟ فقال هو هذه الأربعة)
پهر علامہ تفتازانی اس کی تشریح کرتے ہوئے” تلویح“ میں لکھتے ہیں:
(ماسبق كان بيان مفهوم أصول الفقه وهذا بيان ماصدق عليه هذا المفهوم من الأنواع المنحصرة بحكم الاستقراء في الأربعة) (التلویح مع التوضیح ج 1 ص 19)
ان عبارات کا حاصل مقصود یہی ہے کہ شرعی دلائل صرف چار ہیں۔ کتاب، سنت، اجماع اور قیاس۔
|