حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
(فابن القطان في كتاب الوهم والايهام صحح الحديث باللفظ الاول واعل بلفظ " ثُمَّ لَا يَعُودُ ") (ج 2ص 83 ع)
حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ تہذیب السنن میں لکھتے ہیں:(وضعفه الدارمي والدارقطني والبيهقي) اور اس روایت کو امام دارمی، امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ اور امام بیہقی نے ضعیف کہا۔ نیزمرعاۃ المفاتیح میں ہے:
(وقال البزار : لا يثبت ولا يحتج بمثله . وقال ابنى عبد البر: هو من آثار معلولة ضعيفة عند أهل العلم)
(ج 2 ص 323)
حافظ بزار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں وہ ثابت نہیں اور نہ ہی اس جیسی روایت سے احتجاج کیا جاتا ہے اور حافظ ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں وہ اہل علم کے نزدیک معلول اورضعیف روایات سے ہے۔
تو محترم امجد صاحب !قاری صاحب نے جن ائم محدثین سےحضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی روایت کا قابل احتجاج ہونا نقل فرمایا، ان کے نام اور ان کی تعداد آپ کے سامنے ہے جن سےابن القطان رحمۃ اللہ علیہ کی تصیح کا حال بھی آپ کو معلوم ہوچکا ہے۔ اب یہ بھی یاد رکھئے کہ اس روایت کو ضعیف اور ناقابل احتجاج قراردینے والے ائمہ محدثین بہت ہی زیادہ ہین جن میں سے بارہ کے اسماء گرامی مع حوالہ اُوپر گزر چکے ہیں۔ آپ ایک مرتبہ پھر ان کے ناموں پر نگاہ ڈال لیجئے تو سنیے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی روایت کو ناقابل احتجاج قراردینے والے ائمہ محدثین میں حضرت الامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد رشید حضرت عبداللہ بن مبارک، حضرت الامام احمد بن حنبل، حضرت الامام احمد کے شیخ اور استاذ حضرت یحییٰ بن آدم، امام بخاری، امام ابوداؤد، امام ابوحاتم، حافظ دارقطنی، حافظ ابن حبان، امام دارمی، امام بیہقی حافظ بزار، اور حافظ ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہم کے اسماء گرامی سرفہرست ہیں۔
|