1۔ رفع الیدین نہ کرنا بایں صورت کہ رفع الیدین کرنا سرے سے مشروع ہی نہ ہو۔
2۔ رفع الیدین نہ کرنا بایں صورت کہ رفع الیدین کرنا پہلے پہل مشروع ہو بعد میں سے منسوخ کردیا گیاہو۔ پہلی صورت میں رفع الیدین کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثبوت کا بالکلیہ انکار ہے جبکہ دوسری صورت میں رفع الیدین کے پہلے پہل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہونے کااقرار پھر اس کےمنسوخ ہونے کا دعویٰ ہے کیونکہ جو چیز سرے سے شرع میں ثابت ہی نہ ہو اس کے نسخ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اتنی بات ذہن میں رکھنے کے بعد دیکھنا یہ ہےکہ”رفع الیدین نہیں کرنا چاہیے“ کی مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں سے جناب قاری صاحب نے کون سی صورت اختیار کی ہوئی ہے تو اس سلسلہ میں ان کا اپنا ہی بعد والا جملہ”اور دلیل منسوخیت پر بھی“ صاف صاف بتلارہا ہے کہ انہوں نے دوسری صورت” رفع الیدین کے مشروع ہونے کے بعد منسوخ ہونے کو اختیار فرمایا ہے تو مختصر الفاظ میں یوں سمجھئے کہ قاری صاحب رفع الیدین کے منسوخ ہونے کے مدعی ہیں اور رفع الیدین کی منسوخیت ان کا دعویٰ ہے۔
تو واضح بات ہے کہ ان کے اس دعویٰ میں رفع الیدین کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے پہل ثابت ہونے کااعتراف واقرار موجود ہے لہٰذا ہمیں اس مقام پر صحیح بخاری رحمۃ اللہ علیہ، صحیح مسلم رحمۃ اللہ علیہ، سنن ابی داؤد رحمۃ اللہ علیہ، سنن ترمذی رحمۃ اللہ علیہ، سنن نسائی رحمۃ اللہ علیہ، سنن ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ، موطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، موطا امام محمد رحمۃ اللہ علیہ، شرح معانی الآثار للطحاوی رحمۃ اللہ علیہ، سنن دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ، سنن کبریٰ للبیہقی رحمۃ اللہ علیہ اوردیگر کتب حدیث سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رکوع جاتے اور اس سے سراُٹھاتے وقت رفع الیدین کرنے کو ثابت کرنے والی احادیث کو نقل کرنے کی ضرورت نہیں ہم آپ کو اس جگہ صرف اور صرف یہ بتائیں گے کہ قاری صاحب کا دعویٰ”منسوخیت رفع الیدین“ کسی ایک دلیل سے بھی ثابت نہیں ہوتا۔
|