باندھنے کی وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے علاوہ اور بھی کئی احادیث صحیح اور حسن ہیں لہٰذا ان امیر الحاج وغیرہ کاوائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے علاوہ ناف سے اوپر ہاتھ باندھنے کی تمام احادیث کو غیر ثابت قراردینا درست نہیں۔ صحاح ستہ کے محشی شیخ ابوالحسن سندھی حنفی ابوداؤد کے حاشیہ فتح الودود میں لکھتے ہیں:
”پھر انہوں(ابوداؤد) نے طاؤس سے ذکر کیا انہوں نےکہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ پر رکھتے تھے پھر ان کو اپنے سینے پر باندھ لیتے تھے درآنحالیکہ آپ نماز میں ہوتے اور یہ حدیث اگرچہ مرسل ہے لیکن مرسل ہمارے اور جمہور کے نزدیک حجت ہے۔ پس یہ حدیث دلیل ہونے میں کافی ہے اور کیسے کافی نہ ہو؟جبکہ حال یہ ہے کہ صحیح ابن خزیمہ میں وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے آچکاہے انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے اوپر سینے پر رکھا اور مسند احمد میں ہے قبیصہ بل ہلب سے وہ اپنے باپ سے انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ اپنے ہاتھ کو سینے پر رکھتے۔ المختصر جب ثابت ہوچکا کہ ہاتھ باندھنا ہی سنت ہے چھوڑنا سنت نہیں تو یہ بھی ثابت ہوگیا کہ اس(ہاتھ باندھنے) کا مقام سینہ ہے نہ کہ کوئی اور جگہ۔ واللہ اعلم۔ “
شیخ ابوالحسن سندھی حنفی نے حاشیہ ابن ماجہ میں مزید لکھا ہے:
”لیکن رہی یہ حدیث کہ”ہتھیلیوں کو ہتھیلیوں پر نماز میں زیر ناف رکھنا سنت سے ہے تو انہوں(اہل علم) نے اس کےضعیف ہونے پر اتفاق کیا ہے ابن ہمام(حنفی) نے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کرتے ہوئے ایسے ہی ذکر کیا ہے اور اس پر سکوت فرمایا ہے۔ “
|