لفظ کو تو پکڑ لیا اور اسی حدیث میں موجود ایک بار لفظ”الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ“کو دو دفعہ لفظ”عِيسٰي“کو اور چار مرتبہ لفظ”نبيُّ اللّٰه عيْسٰى عَلَيْه السَّلَامُ“سے عیسیٰ کو آپ نے اپنی تحریر میں جان بوجھ کر ذکر تک نہیں کیا”جان بوجھ کر“ کا لفظ اس لیے لکھ رہا ہوں کہ آپ کی ہی تحریر سے پتہ چل رہا ہے کہ یہ طویل حدیث آپ کے علم میں ہے ہم تو اللہ تعالیٰ سے دعا ہی کریں گے کہ وہ آپ لوگوں کو ہدایت نصیب فرمائے کہ آپ اس قسم کے کاموں ہی سے باز آجائیں“(میرا رقعہ نمبر 2 ص2) اس کے جواب میں آپ نے ایک لفظ بھی نہیں لکھا تو گویا دبی زبان میں آپ نے اعتراف کرلیا کہ یہ کام واقعی آپ نے جان بوجھ کر ہی کیا تھا اب ذرا غور فرمالیں کیا خدا خوفی آپ کے ہاں اسی کو کہتے ہیں؟
ثابت ہی نہیں
اس عنوان کے تحت بندہ نے لکھا تھا” ابن ماجہ کی روایت”وَ لَوْ عَاشَ إِبْرَاهِيمُ لَكَانَ نَبِيًّا “ کی سند میں ایک راوی ابراہیم بن عثمان نامی بھی ہے جس کے متعلق میزان الاعتدال میں لکھا ہے ”كَذَّبَه شُعْبَةُ“الخ لہٰذا یہ روایت سرے سے ثابت ہی نہیں پہلے اسے ثابت فرمائیں پھر استدلال کریں۔ (میرا رقعہ نمبر2 ص2)
اس کو پڑھ کر آپ لکھتے ہیں” ایک طرف آپ صحاح ستہ کہتے ہیں دوسری طرف معترض ہو رہے ہیں۔ یہ کیا چکر ہے۔ الخ(بزعم شما آپ کا پرچہ دوم ص 2) جواباً گزارش ہے کہ یہ وہی چکر ہے جو آپ کے اور تمام لوگوں کے لفظ”ابوین اور والدین“ میں پایاجاتا ہے کہ ایک طرف تو آپ لوگ ماں اور باپ دونوں کو ابوین اور والدین کہتے ہیں اور دوسری طرف ماں کو اب اور والد کہنے پر معترض ہوتے ہو یہ کیا چکر ہے آپ خود ہی غور کریں ؎
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
اصل بات یہ ہے کہ کتب ستہ کو جو ہم لوگ صحاح ستہ کہتے ہیں تو صرف قانون تغلیب کے پیش نظر۔ چنانچہ اہل علم نے جہاں یہ اصطلاح بیان کی ہے وہاں انھوں نے اس اصطلاح کی مذکورہ بالا توجیہ بھی لکھی ہے۔ سمجھنے کے لیے دیکھئے ہم سبھی ماں اور باپ
|