Maktaba Wahhabi

715 - 738
’’نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ چار(ذوالحج)کی صبح کو(مکہ مکرمہ)پہنچے۔وہ حج کا تلبیہ پکار رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حکم فرمایا کہ جس کے ساتھ قربانی کا جانور ہے اسے چھوڑ کر باقی سب لوگ عمرے کا تلبیہ کہیں۔‘‘ اس حدیث میں اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ چار ذوالحج سے لے کر چودہ ذوالحج کی صبح تک مسلسل مکہ مکرمہ اور اس کے مضافات منیٰ،عرفات اور مزدلفہ میں دس دن رہے اور یہ دس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں قیام کی نیت سے ٹھہرے تھے،پھر بھی قصر پڑھتے رہے۔[1] اسی طرح فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم انیس دن مکہ مکرمہ میں ٹھہرے اور مسلسل قصر ہی پڑھتے رہے تھے،جیسا کہ صحیح بخاری،ابن ماجہ اور مسند احمد میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: ((اَقَامَ النَّبِیُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم تِسْعَۃَ عَشَرَ یَقْصُرُ فَنَحْنُ اِذَا سَافَرْنَا تِسْعَۃَ عَشَرَ قَصَرْنَا وَاِنْ زِدْنَا اَتْمَمْنَا))[2] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم انیس دن ٹھہرے اور قصر کرتے رہے۔اس سے آگے وہ فرماتے ہیں:جب ہم انیس دن کا سفر کریں گے تو قصر پڑھیں گے اور اگر اس سے زیادہ مدت کا سفر ہوگا تو پھر پوری نماز پڑھیں گے۔‘‘ بخاری شریف میں کتاب المغازی میں یہ وضاحت بھی ہے کہ یہ قیام مکہ مکرمہ میں تھا۔[3] اسی واقعے کے بارے میں ابو داود میں فتح مکہ کا ذکر بھی ہے،مگر اس میں سترہ دن مذکور ہیں۔صحیح ابن حبان میں بھی یہ حدیث موجود ہے۔ابو داود کی ایک دوسری حدیث میں عمران بن حصین نے اٹھارہ دن ذکر کیے ہیں۔ابو داود،نسائی،ابن ماجہ اور بیہقی میں پندرہ دن کی روایت بھی ہے۔امام بیہقی رحمہ اللہ نے ان سب روایات کو جمع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جس نے انیس دن کہا ہے،اس نے مکہ میں داخل ہونے اور روانہ ہونے والے دو دن بھی شمار کیے ہیں،اور جس نے سترہ دن کہا ہے،اس نے یہ دو دن حذف کر دیے ہیں۔جس نے اٹھارہ دن کہا ہے،اس نے داخلے اور روانگی کے دو دنوں کو ایک دن شمار کیا ہے۔پندرہ والے راوی کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہم اللہ لکھتے ہیں کہ اس نے گمان کیا کہ شاید اصل
Flag Counter