Maktaba Wahhabi

466 - 738
یہ لکھا ہے کہ اس کے بارے میں صحابہ و تابعین سے بہت ساری احادیث و آثار ملتے ہیں،لہٰذا راجح مسلک یہی ہے۔دوسری جانب اگرچہ حضرت وائل رضی اللہ والی حدیث ہے،لیکن وہ ضعیف ہے۔پھر حضرت اَنس رضی اللہ اور اُبی بن کعب رضی اللہ والی روایات ہیں تو وہ ذکر کی گئی تفصیل کی رو سے اتنی ضعیف ہیں کہ پہلی کی شاہد و موید بننے کے قابل نہیں،لہٰذا یہ جانب مرجوح ہے۔ 3۔ ایک ہی موضوع سے متعلقہ دو طرح کی احادیث آجائیں تو اس تعارض میں ایک نہی پر مشتمل ہو اور دوسری اثبات پر،یعنی ایک میں کسی کام کو کرنے کا حکم دیا گیا ہو اور دوسری میں نہ کرنے کا تو ایسی صورت میں ممانعت والی حدیث راجح ہوگی اور یہ ایک مستقل وجۂ ترجیح ہے۔مسئلہ زیر بحث میں حضرت وائل رضی اللہ والی حدیث مثبت ہے،جبکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ والی منفی ہے کہ اونٹ کی طرح پہلے گھٹنے زمین پر مت لگاؤ،لہٰذا یہی راجح ہے۔ایسی ہی دوسری وجوہات و اسباب کی بنا پر حافظ ابن حجر نے بلوغ المرام میں،اسی طرح حافظ ابن سید الناس،قاضی ابوبکر ابن العربی اور علامہ ابن الترکمانی نے بھی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ سے مروی ہاتھوں کو پہلے رکھنے والی حدیث ہی کو راجح قرار دیا ہے۔امام بخاری کا واضح رجحان بھی اسی طرف ہے،جیسا کہ صحیح بخاری میں ان کی تبویب سے معلوم ہو رہا ہے۔امام ابن العربی کے بہ قول یہی عملِ اہلِ مدینہ بھی ہے۔شیخ احمد شاکر،علامہ عبدالرحمن مبارک پوری،محدث البانی،شیخ عبدالقادر ارناووط اور شیخ شعیب ارناووط نے بھی پہلے زمین پر ہاتھ رکھنے اور پھر گھٹنے لگانے والے موقف ہی کو راجح قرار دیا ہے اور اسے اختیار کیا ہے۔امام خطابی نے معالم السنن میں حضرت وائل رضی اللہ والی حدیث کو راجح قرار دیا ہے۔[1] لیکن ہماری ذکر کردہ تفصیل سے ان کی اس بات کا ضعف بھی واضح ہو گیا ہے۔وللّٰه الحمد۔[2] ایک وضاحت: سجدے جاتے وقت پہلے ہاتھ رکھے جائیں یا گھٹنے؟ اس سلسلے میں تفصیلی تحقیق ہم نے ذکر کر دی ہے جس کی رو سے ہمارے نزدیک ہاتھوں کا
Flag Counter