Maktaba Wahhabi

682 - 738
میں اشارہ کیا ہے۔[1] جبکہ دیگر کثیر علما و محدثین نے اس حدیث کو شواہد و طرق کی بنا پر صحیح قرار دیا ہے۔مثلاً امام ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں اسے روایت کیا ہے،امام حاکم نے مستدرک میں روایت کر کے اسے صحیح کہا ہے اور علامہ ذہبی نے تلخیص المستدرک میں،اور انہی کی طرح علامہ ابن الملقن نے بھی امام حاکم کی طرح صحیح کہا ہے۔ علامہ البانی نے بھی ان کی تصحیح کو نقل کر کے اسے برقرار رکھا ہے۔[2] اسی طرح ’’سلسلۃ الأحادیث الصّحیحۃ‘‘(1/ 566)میں بھی ایک سلام والی حدیث کو صحیح شمار کیا ہے۔[3] ایسے ہی انھوں نے تحقیقِ مشکوٰۃ میں بھی سنن ترمذی کی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔[4] علامہ ابن قیم نے اپنی کتاب زاد المعاد میں اس پر کلام کیا ہے،جبکہ اس کتاب کے محققین شیخ شعیب الارناؤوط اور شیخ عبدالقادر الارناؤوط نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔انھوں نے اس حدیث کے کئی طرق اور شواہد بھی ذکر کیے ہیں،جن کی بنا پر یہ حدیث سند کے بعض روات پر کلام ہونے کے باوجود بھی درجۂ صحت کو پہنچ جاتی ہے۔ طرقِ حدیث: اس حدیث کے متعدد طرق ہیں،جن میں ایک تو ابن حبان کے سوا باقی ان محدثین کرام کے یہاں ہے،جن کے حوالے سے یہ حدیث ذکر کی گئی ہے۔اس طریق کے ایک راوی زہیر بن محمد مکّی پر کلام کیا گیا ہے،جبکہ اس حدیث کا دوسرا طریق امام ابن حبان کی صحیح میں ہے اور اس کی سند صحیح مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے۔اسی طرح ابو داود و مسند احمد میں بھی ایک تیسرا طریق ہے: ’’بہز بن حکیم عن زرارۃ بن أوفی عن عائشۃ‘‘[5] شواہدِ حدیث: اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی اس حدیث کے کئی شواہد بھی ہیں:
Flag Counter