Maktaba Wahhabi

763 - 738
برعکس مفہوم ملتا ہے۔مثلاً حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما معروف صحابی رسول ہیں،ان کا گزر ایک عورت کے پاس سے ہوا جو(دھاگے کی گرہوں پر بنی)تسبیح پر وظیفہ کر رہی تھیں تو انھوں نے اسے توڑکرپھینک دیا۔پھر ایک مرد کے پاس سے گزرے جو پتھر کی کنکریوں سے تسبیح کر رہے تھے تو انھیں اپنے پاؤں سے ٹھوکر ماری اور کچھ سخت الفاظ بھی کہے۔ایسے ہی معروف فقیہ حضرت امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے بارے میں مصنف ابن ابی شیبہ(2/ 89/ 2)میں مذکورہے کہ وہ اپنی بیٹی کو دھاگے کی تسبیحات بنانے والی عورتوں کے ساتھ تعاون کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے۔[1] شیخ ابن باز کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ ’’تسبیح‘‘ کا استعمال ثابت نہیں۔[2] ان سب تفصیلات کے پیش نظر افضل اور بہتر یہی ہے کہ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرتے ہوئے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں کے پوروں پر ہی ذکر و اذکار اور وِرد و وظائف کیے جائیں۔اس علمی بحث میں الجھنے سے قطع نظر،ہمارے ان(سعودی و خلیجی)ممالک میں تسبیح کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے کہ بازار میں چل رہے ہیں تو تسبیح ہاتھ میں اور باتیں کررہے ہیں تو تسبیح کے دانے بھی مشینی انداز سے مسلسل گر رہے ہیں۔خوب صورت سے خوبصورت رنگ کی تسبیح کی تلاش میں سرگرداں ہیں اور لکڑ،پتھر یا پلاسٹک سے گزر کر خالص چاندی کی تسبیح بنوائی جا رہی ہے اور پھر اسے احباب کی مجلس میں بڑے انوکھے اندا ز میں ہاتھ کی انگشتِ شہادت پر چڑھا کر گھمایا جاتا ہے اور تسبیح کو تسبیح کرنے کی بجائے شو پیس کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر اس مشقِ ستم،فخر و مباہات اور ریاکاری کے ان تمام مظاہر کو سامنے رکھا جائے تو اس بات کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ احیاے سنت کے لیے اپنے ہاتھ کی انگلیوں کے پوروں پر اذکار و وظائف کیے جائیں۔یوں اخلاص میں صدق و گہرائی پیدا ہوگی اور فخر و ریا کے سائے سے بھی محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ کچھ اور اَذکار: نمازِ پنج گانہ کے فرضوں کا سلام پھیرنے کے بعد جو مجموعی نوعیت کے اذکار و وظائف ہیں،ان
Flag Counter